لاہور: شاعر مشرق اور تصورِ پاکستان کے بانی، ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی آج 87ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے انقلابی خیالات اور شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی، اور علیحدہ وطن کا خواب پیش کیا جسے بعد ازاں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عملی شکل دی۔
9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے علامہ اقبالؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی۔ میٹرک مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے کیا جبکہ ایف اے مرے کالج سے مکمل کیا۔ بعد ازاں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔
علامہ اقبالؒ نے انگلینڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور جرمنی میں میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ وطن واپسی پر انہوں نے تدریس، وکالت اور سیاست میں خدمات انجام دیں۔ 1922ء میں انہیں برطانوی حکومت کی جانب سے “سر” کا خطاب دیا گیا۔
1930 میں الہ آباد میں کیا گیا ان کا تاریخی صدارتی خطاب “تصور پاکستان” کی بنیاد بنا، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ ان کی شاعری، خاص طور پر بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
علامہ اقبالؒ کی فکر کا محور خودی، اسلامی فلسفہ، نوجوانوں کی بیداری اور ملتِ اسلامیہ کا اتحاد رہا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف قوم کو خواب دکھایا بلکہ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے فکری بنیادیں فراہم کیں۔
21 اپریل 1938ء کو اس عظیم مفکر کا انتقال ہوا، لیکن ان کا فکری اور ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کا مزار لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع ہے جہاں ہر سال ہزاروں افراد حاضری دیتے ہیں۔
موجودہ حالات میں اقبال کے پیغام کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ قوم میں اتحاد، خودی اور ملی شعور کو فروغ دیا جا سکے۔
