اسلام آباد: (نیا محاذ)جنگلات اراضی کیس، سپریم کورٹ آف پاکستان میں جنگلات کی اراضی سے متعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے زیر قبضہ اور واگزار کروائی گئی زمینوں کی تفصیلی رپورٹس طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ صرف رپورٹیں نہیں، حقیقت پر بھی توجہ دی جائے گی۔
پانچ رکنی آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی، جبکہ دیگر معزز ججز میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ “دنیا بھر میں جنگلات کا رقبہ بڑھایا جا رہا ہے، جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس صورتحال ہے۔ ہمیں صرف کاغذی رپورٹس نہیں، زمینی حقائق بھی دیکھنے ہوں گے۔”
انہوں نے زیارت جیسے سرد علاقوں کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ “جہاں درجہ حرارت منفی 17 ڈگری تک گر جاتا ہے، وہاں کے لوگ اگر درخت نہ کاٹیں تو کیا کریں؟ کیا حکومت نے ان علاقوں میں کوئی متبادل توانائی کا بندوبست کیا ہے؟”
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ زیارت میں ایل پی جی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ “کیا پہاڑی علاقوں میں بسنے والے غریب لوگوں کو ایل پی جی پر کوئی سبسڈی بھی دی جا رہی ہے؟”
جسٹس امین الدین خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “2018ء سے اب تک صرف رپورٹس ہی جمع ہو رہی ہیں، عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟ عوام کو بہتر سہولیات دینا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔”
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے نشاندہی کی کہ “سندھ میں تو سمندر ہی زمینیں نگل رہا ہے، جبکہ درختوں کا تحفظ پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔”
جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا، “درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، یہ حکومتی اداروں اور متعلقہ وزارتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگلات کے تحفظ اور فروغ کے لیے عملی اقدامات کریں۔”
عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو ہدایت دی کہ آئندہ سماعت پر مکمل اور زمینی حقائق پر مبنی رپورٹس پیش کی جائیں۔ کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔
