اسلام آباد (نیا محاذ )بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا قافلہ زیرو پوائنٹ پل پہنچ گیا اور وہاں ڈی چوک کی جانب رواں دواں ہے جبکہ گزشتہ رات ہونے والی جھڑپ میں رینجرز کے 4 اہلکار شہید ہو گئے جس کے بعد وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب تعینات کر دی گئی اور شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیدیا گیاہے۔پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان زیرو پوائینٹ کے قریب پہنچ گئے ہیں جہاں پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی جاری ہے جبکہ مظاہرین پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ زیرو پوائنٹ کے مقام سے آگے ریڈ زون کی حدود شروع ہو جاتی ہے جہاں پر انتظامیہ کے بقول فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
اس سے قبل تحریک انصاف کے قافلہ جی 11 اور جی 9 سے گزرا جہاں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان میں تصادم ہوا جب کہ اس وقت بھی دونوں جانب سے ایک دوسرے پر آنسو گیس کی شیلنگ جاری ہے اور پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا جارہا ہے۔
فوج طلب، شرپسندوں کو گولی مارنے کا حکم
تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران انتشار سے نمٹنے کیلئے وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کرلی گئی۔وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں فوج کی طلبی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کو بلایا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ قانون توڑنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔نوٹیفکیشن کے مطابق آرمی کو کسی بھی علاقے میں امن امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کرفیو لگانے کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔شاہراہ دستورپرپارلیمنٹ ہاؤس سمیت تمام اہم عمارتوں پرفوج تعینات ہے۔ذرائع کے مطابق سکیورٹی اداروں کو انتشار پھیلانے والوں کو موقع پر گولی مارنے کے واضح احکامات دیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے کے دوران سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی تھی جس سے 4 رینجرز اہلکار شہید جب کہ 5 رینجرز اور 2 پولیس کے جوان بھی شدید زخمی ہوگئے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق شرپسندوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں اب تک رینجرز کے 4 اور پولیس کے 2 جوان شہید ہو چکے ہیں جبکہ اب تک 100 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں جن میں متعدد شدید زخمی ہیں۔گزشتہ رات کیا ہوا ؟
گزشتہ رات بانی پی ٹی آئی عمران خان کے احتجاج کیلئے متبادل جگہ کی حامی بھرنے کے باوجود بشریٰ بی بی نے ماننے سے انکار کردیا تھا اور بشریٰ بی بی نے ہر صورت ڈی چوک جانے کا اصرار کیا ہے۔ بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ چند سازشی عناصر ڈی چوک کے بجائے دوسرے مقام پر ہمیں روکنا چاہتے ہیں، عمران خان نے مجھے ہر صورت ڈی چوک جانے کا کہا ہے، ڈی چوک سے کم کسی بھی مذاکراتی فیصلے پر کارکنان راضی نہیں ہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مذاکراتی معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔ پی ٹی آئی کےذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت دھرنے کیلئے حتمی مقام کا تعین کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، مرکزی قیادت میں کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق علی امین نے کہا کہ کارکنان کو اسلام آباد حتمی مقام تک لے جانے کیلئے رابطہ کاری میں مشکل ہو رہی ہے۔بیرسٹر گوہر کی عمران خان سے ملاقات
اس سے قبل بیرسٹر گوہر کی سربراہی میں پی ٹی آئی وفد کی بانی پی ٹی آئی عمران خان سے دوسری ملاقات کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور سے ملاقات کیلئے روانہ ہوئے تھے۔ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر کی قیادت میں پی ٹی آئی وفد کی عمران خان کیساتھ 40 منٹ تک جاری رہنے والی بات چیت میں بیرسٹر گوہر نے احتجاج اور حکومت کی طرف سے آپشنز سےبانی پی ٹی آئی کو آگاہ کیا۔
اس دوسری اہم ملاقات میں عمران خان نے بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور کارکنوں کیلئے اہم پیغام ریکارڈ کروایا تھا۔ عمران خان کے ویڈیو پیغام ریکارڈ کروانے کے بعد بیرسٹر گوہر بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام دکھانے کیلئے روانہ ہوئے تھے۔ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ویڈیو پیغام سننےکےبعد بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے آئندہ کےلائحہ عمل کے اعلان کا امکان تھا۔ذرائع کے مطابق عمران خان کے ویڈیو پیغام میں حکومتی تجاویز میں سے ایک پر اتفاق کیا گیا ہے۔اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ ہم نے مظاہرین سے کہا تھا ڈی چوک پر جس نے بھی جلسہ کیا کبھی اجازت نہیں ملی، درخواست دیں اور سنجانی چلے جائیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت ملاقات کیلئے دو مرتبہ اڈیالہ گئی، انہیں وہاں سے بھی اپروول مل گئی ہے،چاہےدفعہ 144 نافذ کرنی ہو یا ہمیں انتہائی اقدام تک جانا پڑے، پہلے ہی بتارہےہیں، نقصان ہوا تو ہم ذمے دار نہیں ہوں گے۔