اسلام آباد (نیا محاذ)مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی اُونٹنی کم وبیش2 ماہ تڑپنے پھڑکنے، پہلو بدلنے، بلبلانے اور دردِزہ جیسے کرب سے گزرنے کے بعد بالآخر، حکومتی اتحاد کے موافق کروٹ بیٹھ گئی ہے۔ بَرحق زمینی حقیقت اب یہ ہے کہ چھبیسویں ترمیم آئین کے حُجلۂِ عروسی میں آ بیٹھی ہے۔ اِس ترمیم کے ذریعے کی گئی تمام تبدیلیاں پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی ہیں۔ اِن تبدیلیوں کا درجہ ومقام اَب وہی ہے جو 1973ءکے دستور میں درج شقوں کا ہے۔ پارلیمنٹ نے یہ استحقاق آئین کے آرٹیکل 239 (6) کے تحت استعمال کیا ہے۔
“جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان “آئینی ترمیم۔ پارلیمنٹ کی جارحانہ دفاعی جَست” میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ سو کوئی کچھ بھی کہتا رہے، یہ پارلیمنٹ کا اختیار کُلی ہے کہ وہ آئین میں پہلے سے موجود آرٹیکلز میں کسی بھی نوع کی تبدیلی کرے۔ شَرط صرف ایک ہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُسے کل ارکان کی دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ خود کو ہر آئینی قدغن سے ماوریٰ اور لامحدود اختیارات کی حامل سمجھنے والی عدلیہ جس بے رحمی کیساتھ پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو آپریشن تھیٹر کے ’’تختۂِ مشق‘‘ پر ڈال کر نشتر زنی شروع کردیتی ہے، اُس کی بھی آئین ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ ججوں کی تقرری کے اختیار کو پارلیمنٹ کے کردار سے مکمل طورپر آزاد کرنے اور خود اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے جسٹس افتخار چوہدری نے اٹھارھویں ترمیم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا ۔ اٹھارھویں ترمیم کے ساتھ عدلیہ نے یہی سلوک روا رکھتے ہوئے مقننہ کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اُنِّیسویں ترمیم کرکے اپنے اختیارات کو محدود کردے اور عدلیہ کو ججوں کی تقرری کا صوابدیدی اختیار سونپ دے۔
بلاگ میں عرفان صدیقی نے مزید لکھا کہ پچیسویں ترمیم کیلئے اتنے پاپڑ بھی نہیں بیلنا پڑے تھے۔ اب کے بار تو ملک بھر میں ایک تلاطم بپا رہا۔ میڈیا کیلئے کسی دوسرے موضوع میں کوئی کشش نہ رہی۔ افواہوں، قیاس آرائیوں، اندازوں اور تخمینوں کا سرکس سجا رہا۔ صورتِ حال یقین اور بے یقینی کا جھولا جھولتی رہی۔ اِس ساری مشق کے دوران مولانا فضل الرحمن کا آستانۂ عالیہ، خواص کی آماجگاہ بنا رہا۔ تحریک انصاف کے بانی اور اُن کے فدائین نے مولانا کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا۔ لیکن مولانا نے اپنی کشادہ قلبی اور وسیع الظرفی سے بتا دیا کہ سیاست کیا ہوتی ہے؟ مولانا نے مقدور بھر کوشش بھی کی کہ کسی نہ کسی طرح تحریکِ انصاف بھی اِن ترامیم پر آمادہ ہوجائے جس کی کسی ایک شق پر بھی اُسے کوئی اصولی اختلاف نہ تھا۔ لیکن اُن کی کوئی کاوش بار آور نہ ہوئی۔یہ آئینی ترمیم، عدالتی نظم کے اندر کیا انقلاب لائے گی؟ اِس کے اثرات ونتائج کیا ہونگے؟ اِس کے ارتعاشاتِ مابعد کی زَد میں کیا کچھ آئے گا؟ اِس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہی ہوسکے گا لیکن یہ ساراجانکاہ عمل غور سے دیکھنے والوں کو ضرور اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آئین میں ترمیم کس قدر مشکل کام ہے۔
بلاگ کے آخر میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ عدالتی تجاوزات کا سلسلہ لامحدود ہوتا جا رہا تھا۔ عدلیہ نے انتظامیہ اور مقننہ ہی کو نہیں، آئین کو بھی بازیچۂِ اطفال بنا لیا تھا۔ وہ سیاسی اہداف کو اپنے آئینی حلف سے بھی کہیں زیادہ عزیز جاننے لگی تھی۔ پارلیمنٹ ہمیشہ چھن جانے والے حق کیلئے لڑتی رہی ہے۔ حالیہ ترمیم بھی اٹھارھویں ترمیم کی طرف واپسی کا سفر ہے لیکن ’’آئینی بینچ‘‘ کے ذریعے اُس نے ایک بڑی ’جارحانہ دفاعی جَست‘ بھی لگائی ہے۔ اِسکا مقصد، اُس منہ زور جارحیت کے سامنے دفاعی دیوار کھڑی کرنا ہے جو ریاست کے دو بڑے ستونوں مقنّنہ اور انتظامیہ ہی کیلئے نہیں ، آئین کیلئے بھی خطرہ بنتی جارہی تھی۔