پاکستان میں ہر سال 30 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے۔ اگر ہائیڈرو جنریشن کا اہتمام ہو جائے تو یہ قیمتی پانی نہ صرف زراعت میں آبپاشی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے بلکہ اس سے اضافی بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دریا کے بہاؤ (Run of the river) پر بھی جنریشن پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں۔1450میگاواٹ کا غازی بروتھاڈیم پہلے سے اس ضمن میں ایک شاہکار مثال کے طور موجود ہے۔واپڈا کا محکمہ دریائے سندھ کے مختلف مقامات بشمول سکردو، بھنجی، دیامیر بھاشا اور چکوٹھی کے مقامات پر ڈیم بنانے کا منصوبہ رکھتاہے۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں سندھ بیراج کا منصوبہ بھی واپڈا کے ایسے ہی منصوبوں میں شامل ہے جس کا مقصد سمندر میں گر کر ضائع ہونے والے پانی کو استعمال میں لانا ہے۔ مگر حکومت ایک جانب تو مالی وسائل کی عدم دستیابی کے سبب ان پراجیکٹس کو شروع نہیں کر پا رہی تو دوسری جانب آئی پی پیز یعنی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو ہر سال بند کپیسٹیوں کے عوض کھربوں روپے ادا کئے جا رہی ہے۔ اگر ان آئی پی پیز کو یہ مفت کے کپیسٹی چارجز نہ دینے ہوں تو ملک میں نئے ڈیم بن سکتے ہیں اور عوام اور انڈسٹری کو سستی بجلی مل سکتی ہے۔ ملک کو درپیش صورت حال کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 1.4 کھرب روپے ہے جبکہ رواں سال حکومت آئی پی پیز کو ان کے بند کارخانوں پر 2.1 کھرب روپے کپیسٹی چارجز ادا کر رہی ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ حکومت 1.4 کھرب روپے سے دیامیر بھاشا ڈیم تعمیر کر لیتی، 2.1 کھرب روپے بند کپیسٹی چارجز کی مد میں آئی پی پیز کو دے گی۔ اگلے برس یہ ادائیگی 2.8 کھرب روپے ہو جائے گی اور یہ سلسلہ 2030 تک چلے گا۔مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیرمیں باربار تاخیر ہوچکی ہے۔ اس دوران ڈیم کی جگہ پر مقیم آبادیوں کو تین مرتبہ معاوضہ یعنی compensation ادا ہو چکا ہے کیونکہ حکومت کے پاس پراجیکٹ بنانے کے لئے پیسوں کا بندوبست نہیں ہو پایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ابھی بھی واپڈا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈنگ ڈھونڈ رہا ہے۔ شنید ہے کہ اب واپڈا نے ارادہ کیا ہے کہ پہلے پانی کا ریزروائر بنایا جائے گا اور بعد میں پاور پلانٹ لگانے کے لئے آئی پی پیز کو انگیج کیا جائے گا۔ یعنی
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اگر ڈیم کی تعمیر میں غیر ضروری تاخیر نہ ہوئی ہوتی تو آج دیامیر بھاشا ڈیم سے بجلی پیدا ہو رہی ہوتی جبکہ حکومت جتنے پیسے آئی پی پیز کو سالانہ دے رہی ہے اس سے ایک پورا دیامیر بھاشا ڈیم بن سکتا تھا جو نہ صرف پانی کی ضروریات کو پورا کرتا بلکہ بجلی بھی پیدا کر رہا ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے یہ صورت حال ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا کے مصداق ہے کیونکہ ناقص حکومتی پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں نہ صرف بجلی کی قیمت پورے ریجن کے مقابلے میں مہنگی ہو چکی ہے بلکہ صنعت کا پہیہ بھی بند ہو چکا ہے اور ملک میں بے روزگاری کا راج ہے۔تشویش کی بات یہ ہے کہ کچی کینال، نئی گج ڈیم، کرم تنگی ڈیم پراجیکٹ، مہمند ڈیم، دیا میر بھاشا ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور، تربیلا فائیو ایکٹینشن اور کیال کھواڑ ہائیڈرو پاور سمیت متعدد پراجیکٹس مالی وسائل کی کمیابی کے باعث مقررہ وقت میں تعمیر نہ ہو پائے ہیں۔ جبکہ نالونگ ڈیم پراجیکٹ، لوئر سپت گاہ، لوئر پالسا ویلی ہائیڈرو پاور اور چشمہ رائٹ کینال بینک پراجیکٹ ایسے پراجیکٹس ہیں جن کی تعمیر بھی کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے اور چنیوٹ ڈیم پراجیکٹ، بھمبر ڈیم پراجیکٹ، مورنج ڈیم، اکھوڑی ڈیم، ہنگول ڈیم پراجیکٹ، ٹانک زم ڈیم پراجیکٹ، باڑہ ڈیم پراجیکٹ، دارابان زم ڈیم پراجیکٹ، پاپن ڈیم پراجیکٹ، سندھ بیراج پراجیکٹ، سکردو ڈیم، پتن ہائیڈرو پاور، تھاکوٹ ہائیڈرو پاور اور عطا آباد ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سمیت متعدد پراجیکٹ ابھی تک محض کاغذوں کی زینت ہیں کیونکہ حکومت پاکستان ان کے لئے مالی وسائل کی دستیابی یقینی نہیں بناسکی ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسی صورت حال میں ہو رہا ہے جب آئی پی پیز کو بند کپیسٹی کے عوض 2 کھرب کے لگ بھگ رقم بغیر بجلی حاصل کئے ادا کی جا رہی ہے۔
ملک میں بجلی کی ضرورت پوری کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے آئی پی پیز لگانے کی اجازت 1994 کی پاور پالیسی کے تحت دی گئی تھی۔ یعنی بجائے اس کے کہ حکومت خود تھرمل پلانٹ لگاتی، اسے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ جنھوں نے سرمایہ کاری کے چند برسوں میں ہی اپنا سرمایہ اپنے اپنے ملک منتقل کیا اور پاور پلانٹوں کو مقامی بزنس مینوں کے ہاتھ بیچ کر نکل گئے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کے مالی وسائل کے تناظر میں بجلی کے بے جا استعمال کو کم کیا جاتا اور انڈسٹری کو ترجیح دی جاتی۔ ایسا بجلی کی بچت یعنی Conservation اور لوڈ شیڈنگ یعنی راشننگ کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا تھا۔ آخر اس وقت بھی تو پاور ڈویژن ریونیو بیسڈ لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے جو ایک اعتبار سے راشننگ ہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان کو اس قدر زیادہ آئی پی پیز کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
1994کی پالیسی میں درج تھا کہ آئی پی پیز کا جتنا خرچہ آئے گا اس کا آڈٹ کروایا جائے گا جو نیپرا کے ذریعے ہونا تھا۔اس کے علاوہ پلانٹس کے لئے بڈنگ کی شق بھی تھی مگر حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اسی طرح اس پالیسی میں دو طرح کا میکانزم بھی دیا گیا تھا (جس میں Build and operate کے علاوہ Operat and Transferشامل تھے)لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہ ہوا۔ 2002کی پالیسی آئی تو بھی ان قباحتوں کو ختم نہ کیا گیا اور دوبارہ وہی کچھ کیا گیا۔ بعد میں 2013اور 2015کی پالیسیوں میں بھی معاملات کو جوں کا توں رکھا گیا۔ اس دوران صرف 2007 میں ایک مرتبہ بڈنگ کا پراسس ہوا لیکن کسی نے بھی اس میں حصہ نہ لیا کیونکہ مفاد پرست سیاسی عناصر نے ایسا کرنے سے منع کردیا تھا اور یقین دہانی کروائی تھی کہ بڈنگ کے بغیر ہی انہیں پراجیکٹ دلوادیئے جائیں گے۔ عوام میں یہ تاثر گہرا ہو چکا ہے کہ تمام آئی پی پیز معاہدوں میں فراڈ کا عنصر موجود ہے۔ اس فراڈ کی بنیاد پر جو ٹیرف بنایا گیا، غلط بنایا گیا۔ اسی طرح آئی پی پیز نے فراڈ پر مبنی انوائسنگ کی۔ اس کے علاوہ معاہدوں کی شقوں کی بھی غلط تشریح کی گئی۔ اسی لئے یو بی جی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور درخواست کی ہے کہ آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے۔ امید ہے سریم کورٹ جلد اس پٹیشن کو ٹیک اپ کرتے ہوئے مسئلہ حل کرے گی۔