اسلام آباد (نیا محاز )حکومت نے ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کو نشانہ بنانے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں سابق ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کے فوجی فیصلے کو قانون کی حکمرانی قرار دیتے ہوئے سراہا ہے تاہم پاکستان تحریک انصاف نے اسے فوج کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا ہے اور اس معاملے پر محتاط رہنے کو ترجیح دی ہے۔
نجی اخبارڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ فوجی اقدامات ا±ن کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستانی فوج منظم ادارہ ہے اور ان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے حوالے سے اپنے طریقہ کار ہیںتاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، سینیٹر عرفان صدیقی، سینیٹر افنان، رانا ثنااللہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کی جانب سے اس اقدام پر کھل کر تبصرہ کیا گیا ہے، عطا اللہ تارڑ نے اس فیصلے کو ’صحیح فیصلہ‘ قرار دے دیا ہے۔وفاقی وزیر کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ فیض حمید کے خلاف اقدام تحقیقات کی بنیاد پر کیا گیا ہوگا۔سینیٹر عرفان صدیقی نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تاحال ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے متعلق مختصر اعلان کیا گیا ہے لیکن جب تحقیقات آگے بڑھیں گی، تو ان کی سیاسی مداخلت بھی ثابت ہوجائے گی۔ان کا انکشاف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ایک کمرہ مختص تھا، جہاں ڈی جی آئی ایس آئی کے احکامات کے مطابق ایک فوجی افسر بیٹھ کر پارلیمنٹ کی کارروائیوں پر نظر رکھتا تھا۔
، بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ فیض حمید نے پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ میں قانون سازی اور قومی اسمبلی میں ممبران کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لئے مدد کی تھی۔سینئر سیاستدان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ فیض حمید عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی پشت پناہی میں ملوث رہے ہیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے میڈیا، سیاستدانوں کو کنٹرول کیا ہوا تھا، یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی، فیض حمید کا خیال تھا کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثنااللہ نے کہا کہ فیض حمید کے خلاف کچھ الزامات ضرور ثابت ہوئے ہوں گے، جو ان کی گرفتاری کی وجہ بنے۔الزام عائد کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ فیض حمید ’سیاسی مداخلت‘ میں ملوث رہے ہیں، اور انہی کی ہدایات پر ایک مذہبی جماعت نے فیض آباد دھرنا دیا تھا، جس نے وفاقی دارالحکومت کی اہم سڑکوں کو بند کئے رکھا تھا۔
سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بظاہر فیض حمید کے خلاف اقدام سپریم کورٹ کے پرائیوٹ ہاو¿سنگ سکیم ’ٹاپ سٹی‘ کے حکم پر کیا گیا ہے، جس کے مالک کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2017 میں فیض حمید کی ہدایت پر رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تھا، جس میں بھاری نقدی اور سونا لوٹا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کی جانب سے بھی ردعمل دیا گیا ہے، فوج کے اندرونی احتساب کے نظام کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیض حمید کے خلاف انکوائری ان کی مختلف خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتی ہے، جہاں پاک فوج نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کی۔پیپلز پارٹی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ اگر فوج نے کسی اعلیٰ افسر کے خلاف ایسے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا تو یہ جرائم کی شدت اور حساسیت کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ قمر زمان کائرہ نے سپریم کورٹ کے کردار کو بھی سراہا، جہاں ادارے نے حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔نجی ٹی وی جیو نیوز سے بات چیت میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے جنرل (ر) فیض حمید کا یقینی طور پر سیاسی معاملات میں ہاتھ رہا ہے۔وزیر دفاع نے اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید کا اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے براہ راست کردار تھا اور دعویٰ کیا کہ سابق خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا 9 مئی واقعات میں بھی کردار ہوسکتا ہے، جب عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے کئے گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر واقعات اسی جانب نشاندہی کر رہے ہیں۔
0