مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:339
یکا یک آنکھ کھلی، نیندمیں ڈوبا ہوا ذہن ٹھکانے پر آیا تو وہی خیالات پھر لوٹ آئے، وہ گئے بھی کہاں تھے؟ میں ہی ان سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ مجھے ایک دم اپنی بہت ہی محبت کرنے والی شریک حیات کا خیال آیا، میں سوچ رہا تھا کہ ہم تو دو ہو کر بھی ہمیشہ اکیلے ہی رہے تھے لیکن میرے بعد تو وہ بالکل ہی تنہا رہ جائے گی، پتہ نہیں بیچاری کے ساتھ زمانہ کیا سلوک کرے گا، اس نے اچھے اور برے وقت میں جس طرح میرا ساتھ دیا تھا وہ باہمی محبت کا تقاضا تو تھا ہی، تاہم اس میں اس کی بے شمار قربانیاں بھی شامل تھیں۔ اس نے زندگی میں کبھی مجھے پریشان ہونے کا موقع ہی نہیں دیا تھا، روائتی بیویوں کی طرح ہر کڑے امتحان کے وقت وہ میرے پیچھے چٹان بن کر کھڑی رہتی تھی۔ بیماری کی حالت میں وہ ساری ساری رات میرے سرہانے کھڑی پتہ نہیں کیا کیا پڑھتی رہتی تھی، مجھ پر ایسے ہی مواقع پہلے بھی آئے تھے، لیکن اس کی دعاؤں اور مضبوط ارادوں نے جیسے میرا بازو پکڑ کر مجھے منجدھار سے باہر کھینچ لیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ تو اس حد تک مجھ پر انحصار کرتی ہے کہ میری کوشش کے باوجود اس کو چیک تک بھی لکھنا نہ آیا۔ جو کچھ میں نے کہا وہ اس پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئی۔ یہ محبت، اعتماد، اور جذبہئ خدمت کی انتہا تھی۔
پھر میں یہ سوچ کر پرسکون ہو گیا کہ لوگ یکدم بھی تو چلے جاتے ہیں میرے پاس تو پھر ابھی کچھ مہلت ہو گی۔ میں اس کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ تو کر سکتا تھا۔ دل کوکچھ سکون ملا تو میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ بظاہر سکون سے سوئی ہوئی تھی، لیکن مجھے علم تھا کہ میرے نہ بتانے کے باوجود اس کو کچھ خدشات تو یقینا تھے۔
اگلے دن میں اسے بڑی حسرت سے دیکھتا اور جب وہ مجھے دیکھتی تو میں فوراً نظریں چرا لیتا۔ پھر جب میں نے اسے اپنی اس غیر متوقع مشکل صورتحال کے بارے میں بتایا تو میرا خیال تھا وہ شدید پریشان ہو جائے گی، اس کے آنسو نکل آئیں گے اور بے یقینی کے عالم میں مجھے دیکھتی رہے گی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اس نے بڑے سکون سے یہ سب کچھ سنا، کوئی فلمی طرز کا مکالمہ نہیں بولا، بڑے اعتماد سے کہا کہ ”کچھ نہیں ہوا ہے آپ کو اور اگر کچھ ہے بھی تو اللہ کی رحمت پر بھروسہ کر کے اپنا علاج کروائیں اور باقاعدگی سے اپنے کام پر جائیں“۔
اس کا بڑا پن تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میرے ساتھ ایسے ہی پیش آئی تھی جیسے عام اور صحت مند انسان کے ساتھ آیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ سن کر اندر سے تو وہ بھی ٹوٹ سی گئی ہو گی لیکن شاید پھر سوچا ہو گا کہ اگر دونوں ہی یوں حوصلہ ہارکر بیٹھ گئے تو کہیں وقت سے پہلے ہی وقت نہ آ جائے۔ اس نے چپ چاپ اپنی دعاؤں کی کتابیں اور پنچ سورہ اٹھایا اور جائے نماز پر جا کر بیٹھ گئی۔ پچھلے 26 برس میں ایک دن بھی وہ مجھے پڑھا ہوا پانی پلانا نہ بھولی تھی، اب تو وہ ہر وقت گلاس پر پھونکیں مارتی ہوئی نظر آنے لگی تھی۔
میں نے ایک دن اس کو ساتھ بٹھا کر اپنے بینک اکاؤنٹ وغیرہ کے بارے میں بتایا تاکہ میرے بعد اسے کوئی مشکل نہ ہو لیکن میری کوشش کے باوجود وہ اس معاملے میں ایک انتہائی نالائق شاگرد ہی نکلی، اس نے ٹھیک طرح سے سنا اور نہ ہی کسی بات میں کوئی دلچسپی ظاہر کی۔ اب مجھے خود ہی اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اس کے لیے کچھ کرنا تھا، جو میں نے کیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
0