مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:170
لبنان پہلے فرانس کی نو آبادی تھا اس لیے یہاں فرانسیسی ثقافت کے اثرات بھی نظر آئے۔ عام طور پر لبنانی باشندے بہت تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور تہذیب و اخلاق میں بھی اپنے ہم عصروں سے بہت آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں ان کو عزت بھری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ وہاں اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں یہاں نسلی تقسیم بہت شدت سے سامنے آئی جس نے یہاں کی سیاست اور ثقافت پر بہت بُرا اثر ڈالا۔ پھر لبنان کو بہت سنگین مشکلات نے آ گھیرا جس کا اثر لا محالہ ان کی معیشت اور معاشرت پر بھی پڑا۔ لیکن 1966 ء کے خوبصورت شہر بیروت کی پہلی اور آخری سیر کی حسین یادیں ابھی تک میرے ذہن میں موجود ہیں۔
پاکستان کے پڑوسی ملک ایران کا عظیم شہر تہران ہمارا اگلا ٹھکانہ تھا۔ یہ شہر شہشنشاہ رضا شاہ پہلوی کی حاکمیت میں 1966 میں بہت تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ یہاں شاہی نظام کے تحت یہ ایک با رُعب شہر کے انداز میں نظر آتا تھا جس پر ایرانی بجا طور پر فخر کرتے تھے۔ یہاں کی خوبصورت اور کشادہ شاہراہیں، عظیم الشان نجی اور سرکاری عمارتیں اور شاہی محلات بہت حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں سب سے پہلے میں نے جو ایرانی کھانا چکھا اس کا نام چُلو کباب تھا۔ یہ اتنا لذیذ تھا کہ میں تو فوراً ہی اس کے ذائقے کا اسیر ہو گیا۔تب سے ہی یہ میرے ساتھ جڑ گیا تھا اور میں ہمیشہ اس سے لطف اندوز ہوا ہوں۔
ایک دور تھا کہ شہنشاہ ایران کا دنیا بھر میں اتنا اثر و رسوخ تھا کہ دنیا کے دوسرے ممالک بے چینی سے اُس کے دورے کے منتظر رہتے تھے اور اُنھیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے رہتے تھے۔ اور پھر وقت کا پہیہ تیزی سے آگے گھوما اور زمین اس پر تنگ ہوتی گئی، کچھ عرصے بعد تو یہ حالت ہو گئی تھی کہ کوئی بھی اس کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا،حتیٰ کہ جب اس کی موت واقع ہوئی تو کسی نے بھی اس کو چند فٹ کی قبر کے لیے جگہ دینے کی حامی نہیں بھری تھی۔ مصر نے ترس کھا کر اس کو اپنے ملک میں تدفین کی اجازت دی۔ یہ وہی طاقتور شہنشاہ تھا،جس کے ایک اشارے پر دنیا اُلٹ پلٹ ہو جایا کرتی تھی، اب وہ ذلت اور رسوائی کے گہرے گڑھے میں غرق نشان عبرت بن گیا تھا۔یہ دنیا جائے عبرت ہے۔ تاریخ ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے لیکن کوئی بھی حکمران اس سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یہاں آکر ہمارا طویل اور تھکا دینے والا سفر تمام ہوا اور یوں میں نے اپنے دیرینہ خوابوں کی تعبیر پا لی تھی۔ تہران سے ہم کراچی آئے جہاں میرے بھائی نے مجھے بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ وہاں سے لاہور کی اگلی پرواز پر ہماری نشستیں محفوظ تھیں۔ ان دنوں لاہور ایک قدرے چھوٹا سا ائیرپورٹ ہوتا تھا اور جہاز اُس جگہ کے بالکل پاس ہی جاکر کھڑا ہوتا تھا جہاں فولادی جالی کے اس پار مسافروں کے عزیز اور دوست کھڑے ہوتے تھے اور وہ مسافروں کو جہاز کی سیڑھیوں سے اترتا یا چڑھتا ہوا بھی دیکھ سکتے تھے۔ جیسے ہی میں نے جہاز کی سیڑھیوں پر قدم رکھا تو میں نے اپنے خاندان کے سارے افراد کو دیکھ لیا جومیرا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں میرے والدین کے علاوہ آٹھوں بھائی ان کی بیویاں اور بچے شامل تھے۔ اپنے ان عزیزوں کو دیکھ کر میرے اند ر خوشی اور ہیجان سا پیدا ہوا۔ میرے خون نے جوش مارا اور میں بھی ان سے ملنے کو بیتاب ہو گیا۔ جلد ہی میں ان کے ساتھ تھا اور ہم ایک دوسرے سے خوب گلے مل رہے تھے۔ وہ بھی بہت خوش تھے اور میں بھی۔ لیکن میرا خیال تھا کہ وہ مجھے اکیلا دیکھ کر کچھ مایوس بھی ہوئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ احمد خاں کی خبر کے مطابق میں امریکہ سے اپنے ساتھ کوئی گوری لے کر آؤں گا جو میرے پیچھے پیچھے آرہی ہو گی۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ لیکن اند ر ہی اندر سے انھوں نے سکھ کا سانس بھی لیا ہو گا۔ کیوں کہ اس کے بعد کسی نے بھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
0