اسلام آباد (نیا محاذ۔ 15 اگست 2024ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بدھ کے روز ایم پاکس کے پھیلاؤ کو عالمی سطح پر صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دے دیا۔ عالمی ادارے نے دو برسوں کے دوران اس وائرس کی دوسری بار اس طرح کی درجہ بندی کی ہے۔
ایم پاکس وائرس کا پھیلاؤ، افریقہ میں ہنگامی حالت
اس سے قبل بدھ کے روز ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس وباء پر تبادلہ خیال کے لیے اپنی ہنگامی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا اور ادارے نے اسی میٹنگ کے بعد اس وبا کو صحت عامہ کی بین الاقوامی ایمرجنسی قرار دینے کا فیصلہ کیا۔
جرمنی ایک نئی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار؟
ایم پاکس کا وائرس قریبی رابطے سے لگتا ہے اور نتیجتآ پہلے فلو جیسی علامات ابھرتی ہی اور پھر جلد پر پیپ سے بھرے چھالے پڑ جاتے ہیں۔
عام طور پر یہ ایک ہلکی بیماری ہے، تاہم بعض غیر معمولی کیسز میں یہ وائرس مہلک بھی ہو سکتا ہے۔
پچاس سال سے کم عمر کے افراد میں بڑی آنت کے کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح
اس دوران ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں وائرس کا ایک نیا ورژن سامنے آیا ہے اور یہ تیزی سے روانڈا، برونڈی اور وسطی افریقی جمہوریہ سمیت کئی پڑوسی ممالک میں پھیل چکا ہے۔
دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس اسی مدت کے دوران نئے کیسز میں 160 فیصد اور اموات میں 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی طرف سے اعلی ترین سطح کا الرٹ
براعظم افریقہ میں اس وبا سے متاثرہ 17,000 سے زیادہ کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، جبکہ 500 سے زیادہ افراد اس بیماری سے موت ہو چکی ہے۔
دسمبر میں کووڈ سے دس ہزار افراد کی موت
اس تناظر میں افریقی یونین کی ہیلتھ اتھارٹی افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (افریقہ سی ڈی سی) نے منگل کے روز ایم پاکس کے وائرس پھیلنے کو براعظم افریقہ میں صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دیا تھا۔
نمونیا کے کیسز کے پیچھے ’کوئی غیر معمولی وائرس نہیں،‘ چین
‘پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرن’ (پی ایچ ای آئی سی) کی سطح کا الرٹ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اعلی ترین سطح کا الرٹ ہوتا ہے، جس کا مقصد بیماری پر مزید تحقیق کرنا، فنڈ جمع کرنا اور صحت عامہ کے بین الاقوامی اقدامات کو تیز کرنا ہوتا ہے، تاکہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعاون میں اضافہ کیا جا سکے۔
غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال ’’ڈیتھ زون‘‘ بن چکا ہے، ڈبلیو ایچ او
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈناہوم گیبریئس نے مزید کہا: “یہ واضح ہے کہ ان وباؤں کو روکنے اور جانیں بچانے کے لیے ایک مربوط بین الاقوامی ردعمل بہت ضروری ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “یہی وہ چیز ہے جس پر ہم سب کو تشویش ہونی چاہیے۔ افریقہ کے اندر اور اس سے بھی آگے پھیلنے کا امکان بہت ہی تشویشناک ہے۔
لاکھوں مزید ویکسین کی ضرورت
افریقہ سی ڈی سی کے سربراہ ژاں کیسیا نے منگل کے روز کہا تھا کہ افریقی براعظم میں فی الوقت صرف دو لاکھ ایم پاکس ویکسین دستیاب ہیں، جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کا ادارہ ویکسین کی فراہمی کو بڑھانے کے لیے تیزی سے کام کرے گا۔
ادھر امریکہ نے کہا کہ وہ وائرس کے پھیلاؤ کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے پہلی بار سن 2022 میں ایم پاکس کو عالمی ایمرجنسی قرار دیا تھا، جب یہ 70 سے زیادہ ان ممالک میں پھیل گیا تھا، جہاں پہلے اس وائرس کی اطلاع تک نہیں تھی۔ البتہ اس وبا کے دوران متاثرہ افراد میں سے ایک فیصد سے بھی کم لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
افریقہ سی ڈی سی کے حکام کا کہنا ہے کہ اس برس کانگو میں تقریباً 70 فیصد کیسز 15 سال سے کم عمر کے بچوں میں ہیں، جن میں سے 85 فیصد کی اموات ہو گئیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)