0

ہوٹل کی تلاش میں بسا اوقات مجھے کئی کئی گھنٹے لگ جاتے، وہ اس دوران بڑے صبر اور سکون سے بالکل انجان جگہ پر بیٹھی میرا انتظار کیا کرتی

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:356
کسی تقریب میں شرکت کرنا ہو تو عام خواتین کے برعکس وہ فوجی انداز میں انتہائی مستعدی سے اور عین وقت پر تیار ہو جاتی ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ مجھے اس کی تیاری کے انتظار میں پنجرے میں قید کسی بھالو کی طرح ادھر سے اُدھر چکر لگانا پڑے ہوں نہ ہی اس مسئلے پر مجھے کسی میزبان کے سامنے تاخیر سے پہنچنے پر کبھی کوئی شرمندگی ہوئی۔
سعودی عرب میں بھرپورجنگ کے دوران جب میں دفتر جاتا تھا تو کچھ دن ایسے بھی آئے جب آ ٹھ اپارٹمنٹ کی پوری عمارت میں وہ بالکل ہی تنہا ہوتی تھی، اور دور دور تک کوئی ذی روح آس پاس نہیں ہوتی تھی، تو وہ تب بھی نہ گھبرائی۔اور نہ ہی جنگ سے ذرا بھی خائف ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ اس دوران عراق کی طرف سے پھینکے جانے والے ا سکڈ میزائل ایک تسلسل کے ساتھ اور خوفناک دھماکوں سے ریاض میں گر کر پھٹتے رہے جن کی آواز سن کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا۔ اس نے یہ سب بہت سکون کے ساتھ برداشت کیا۔ بڑے مضبوط ا عصاب ہیں اس کے۔
اسی طرح جب ہم یورپ کی سیاحت بذریعہ ٹرین کر رہے تھے، تو اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں اس کو اجنبی ملک میں ریلوے سٹیشن میں بٹھا کر خود ہوٹل کی تلاش میں باہر نکل پڑتا تھا، جس میں بسا اوقات مجھے کئی کئی گھنٹے بھی لگ جاتے تھے۔ وہ اس دوران بڑے صبر اور سکون سے بالکل انجان جگہ پر بیٹھی میرا انتظار کیا کرتی تھی۔اس کے چہرے پر ذرا بھی پریشانی یا ڈر خوف نہیں ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ بھی جب کوئی برا وقت آیا، یا میں بیمار ہوا اس نے کبھی مجھے تنہا نہیں رہنے دیا، وہ میرے ساتھ ہی کھڑی رہی اور میرا اتنا زیادہ ساتھ دیا کہ بعض اوقات مجھے شرمندگی سی ہونے لگتی تھی کہ آخر میں کیوں بیمار ہوا۔ اس نے ایک بہت ہی اچھی نرس کی طرح میرا خیال رکھا اور وقت پر دوا دی۔ اور ڈاکٹر کی ہدایات کے بر عکس مجھے کچھ بھی کرنے نہیں دیا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ فرشتہ ہے، اس دنیا میں کوئی بھی فرشتہ نہیں ہوتا، اس میں بھی یقیناً اوروں کی طرح بشری کمزوریاں اور خامیاں موجودہیں، لیکن بعض صورتوں میں کسی انسان کی اچھائیاں بہت تیزی سے آگے نکل جاتی ہیں اور کمزوریاں پیچھے اس کی گرد میں کہیں گم ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی کوئی سلسلہ اس کے ساتھ بھی ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں اس کی فطرت اور شوق عام خواتین جیسے ہی ہیں۔ اس کا بھی اچھا خاصہ وقت جوتوں، پرس اور کپڑوں کی دکانوں پر ہی گزرتا ہے۔گھر کے لیے نمک مرچ سے لے کر ماچس تک اور چکی سے آٹا دالیں سب ہی خود خریدتی ہے۔ اس کو کسی دوسرے پر اعتبار ہی نہیں ہے، مجھ پر بھی نہیں۔
نماز روزے کی پابند اور تہجد گزارہے، دل لگا کر عبادت کرتی ہے۔ دبی زبان میں مجھے بھی حق سچ کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتی رہتی ہے لیکن میرے دل پر تو جیسے مہریں لگی ہوئی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی زندگی میں کوئی امتحان کی گھڑی آئی تو اس کی مسلسل عبادتوں، دعاؤں اور ثابت قدمی نے اس برے وقت کو ٹال دیا۔ اسے خدا کی ذات پر غیر متزلزل اعتماد ہے۔زندگی میں بہت کم روئی ہے اور نہ ہی میں نے کبھی اسے رُلایا ہے، اس کی آنکھوں سے صرف2 دفعہ آنسو چھلکے تھے، جب اس کے والدین نہیں رہے تھے۔
میں نے کئی دفعہ اس کو چھیڑنے اور تنگ کرنے کی خاطر شرارتیں بھی کیں جس میں کچھ ایسی بھی تھیں کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ٹھیک ٹھاک جنگ عظیم چھڑ سکتی تھی۔ لیکن اس پر کبھی کوئی پائیدار اثر ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اب تو وہ اس بات کی اتنی عادی ہو گئی ہے کہ جب ٹیلی ویژن پر میری پسندیدہ اینکریا اداکارہ کو دیکھتی ہے تو انتہائی فرمانبرداری سے فوراً مجھے اطلاع دینے دوڑی چلی آتی ہے کہ کہیں میں اس کے دیدار سے محروم نہ رہ جاؤں۔ اور میں بھی اس کی اسی ڈھیل سے فائدہ اٹھا کر اس حد تک بے باک ہو گیا ہوں کہ اپنی متبادل چاہت میں اس سے مشورہ بھی کر لیا کرتا ہوں۔ ویسے بھی اس کا خیال ہے کہ میں جس کسی پر بھی اپنی آنکھ دھرتا ہوں وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں