0

چین کا دوسرا انقلاب

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج چین کی بے مثال اور کرشماتی ترقی میں اصلاحات اور کھلے پن کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔اس پالیسی جسے” چین کا دوسرا انقلاب” قرار دیا جا سکتا ہے، نے نہ صرف ملک میں گہری تبدیلیاں لائی ہیں بلکہ پوری دنیا کو بہت متاثر کیا ہے۔آج چین کو اصلاحات اور کھلے پن پر عمل کرتے ہوئے چھیالیس سال ہو چکے ہیں ، اسے ایک طویل عرصے سے ایک “اہم قدم” کے طور پر بیان کیا جاتا رہا ہے جس نے چین کو حقیقی معنوں میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایک طاقت ور ملک بنایا ہے۔
اس تناظر میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 20 ویں مرکزی کمیٹی کا تیسرا کل رکنی اجلاس ابھی حال ہی میں پیر سے جمعرات تک بیجنگ میں منعقد ہوا جس میں ایک مرتبہ پھر “اصلاحات” توجہ کا مرکزی نکتہ رہا۔غیر ملکی مبصرین کے نزدیک شی جن پھنگ کی قیادت میں چین اصلاحات اور کھلے پن کے عزم کا اعادہ کرتا رہے گا۔
یہاں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے ملک میں اصلاحات کو آگے بڑھانا انتہائی مشکل کام ہے۔چینی صدرشی جن پھنگ نے اسی تناظر میں 2014 میں غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم جرات مندانہ طور پر کام کریں اور تیزی سے ترقی کریں۔دیکھا جائے تو اصلاحات کی ضرورت اُسی وقت پیش آتی ہے جب کچھ مسائل درپیش ہوں اور ان مسائل کو حل کرنے کے ذریعے اصلاحات مزید گہری ہوتی ہیں۔اصلاحات کے عمل میں نئے مسائل سے نمٹنے کے لئے “جرات مندانہ طور پر کام کرنے اور تیزی سے آگے بڑھنے” کے حوالے سے صدر شی کا بیان جہاں انتہائی متاثرکن ہے وہاں چین کی ترقی کے امکانات پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی ہے۔ایک دور اندیش رہنما کے پاس معاشرے کو بہتر بنانے کے مواقع اور چیلنجوں کو سمجھنے کے لئے دور اندیشی اور بصیرت ہونی چاہئے۔
موئثر قیادت اور گورننس کا تذکرہ کیا جائے تو شی جن پھنگ نہ صرف اصلاحات کے ذریعے پیش کردہ مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ضروری اقدامات کرتے ہوئے متعلقہ خطرات اور چیلنجز سے بھی بخوبی نمٹ رہے ہیں۔ایک دہائی سے زائد عرصے سے شی جن پھنگ نے معیشت، سیاست، ثقافت، معاشرے، ماحولیات، پارٹی کی تعمیر، قومی دفاع اور فوج سمیت مختلف شعبوں میں 3000 سے زائد اصلاحاتی منصوبوں کی قیادت کی ہے۔شی جن پھنگ کی سربراہی میں اصلاحات نے وسیع شعبوں کا احاطہ کیا ہے اور چین کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا بروقت اور موثر جواب دیا ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران چین کی اصلاحات نے ٹھوس پیش رفت کی ہے اور مختلف شعبوں میں مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی مبصرین نے چین کے اصلاحاتی اقدامات اور جدید کاری کے اس کے راستے کو ترقی پذیر دنیا کے لئے قابل قدر سبق قرار دیا ہے۔18 ویں سی پی سی نیشنل کانگریس کے بعد سے ، چین کی اصلاحات کو وسیع پیمانے پر گہرا کرنے کا عمل عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اصلاحات کا حتمی مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے، انہوں نے لوگوں کی ترجیحات کو اپنا بنانے اور ان کی خواہشات پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے۔عوام پر مرکوز نقطہ نظر مساوات اور انصاف کے ادارہ جاتی انتظام اور سخت محنت کے عملی انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔عوام پر مبنی ترقی کے تصور نے چین میں طبی دیکھ بھال، تعلیم، غربت کے خاتمے اور دیہی ترقی جیسے مختلف شعبوں میں قابل ذکر نتائج حاصل کیے ہیں۔
ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مبصرین صدر شی جن پھنگ کے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے وژن کو بھی سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو سمیت چین کی جانب سے تجویز کردہ اقدامات عالمی چیلنجز سے نمٹنے میں چین کی دانشمندی اور انسانی تہذیب کو آگے بڑھانے کے لیے اس کے خاکے کی عکاسی کرتے ہیں۔ان اقدامات سے چین نے ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر اپنے کردار کا مظاہرہ کیا ہے اور ممالک کو مساوی بنیادوں پر بات چیت کرنے اور امن اور ترقی کے حصول کے لئے ترغیب دی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں