اسلام آباد ( نیا محاز اردو۔ 10 جولائی 2024ء) پاکستان میں حکومت نے فوج کے زیر انتظام خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور پیغامات ٹیپ کرنے کا قانونی اختیار دے دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس اقدام کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے ملکی سیاست میں پہلے سے موجود غیر معمولی کردار کو مزید تقویت ملے گی۔
پاکستان کی طاقتور فوج ملک میں حکومتیں بنانے اور توڑنے میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے تاہم اب اس کی خفیہ ایجنسی کے لیے مزید اختیارات پر اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا صارفین کڑی تنقید کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اس حوالے سے پیر آٹھ جولائی کو جاری کیے گئے نوٹس میں اس کا مشورہ دیا گیا ہے۔
تارڑ نے منگل کو کہا، ”جو کوئی بھی قانون کا غلط استعمال کرے گا اسے کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
تارڑ کا مزید کہنا تھاکہ یہ اقدام مجرمانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سراغ لگانے تک محدود ہو گا اور حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس سے لوگوں کی زندگیوں اور رازداری کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے، ”وفاقی حکومت قومی سلامتی کے مفاد اور کسی بھی جرم کے اندیشے سے نمٹنے کے لیے افسران کو کالز اور پیغامات انٹرسیپٹ کرنے اور کسی بھی ٹیلی کام سسٹم کے ذریعے کالز ٹریس کرنے کا اختیار تفویض کرتی ہے۔
‘‘
جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارلیمنٹ میں اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔ تاہم عمران خان ماضی میں قانونی طور پر اجازت نہ ہونے کے باوجود آئی ایس آئی کی جانب سے اپنے سمیت سیاست دانوں کی ٹیلی فون کالزکی نگرانی کی حمایت کر چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب خان نے کہا کہ ایجنسی اپنے اختیارات کو حکومتی قانون سازوں کے خلاف بھی استعمال کرے گی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی پارٹی اس نوٹیفکیشن کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے روئٹرز کی جانب سے اس پیشرفت پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
انسانی حقوق کے گروپوں پر مشتمل گروپ بولو سے تعلق رکھنے والی کارکن فریحہ عزیز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سوال کیا۔ ”کیا جو ‘قانونی‘ ہے وہ آئینی ہے؟ یا صحیح بھی ہے؟‘‘