0

تحریک انصاف نے پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران قومی اسمبلی میں خالی رہنے والی نشستوں اور دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومتوں کے دورانیے پر سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروانے پر مشاورت مکمل کرلی

الیکشن کمیشن کی جانب سے خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرنے اور صوبوں میں آئین میں تعین کردہ نوے دن کے اندر انتخابات نہ کروانے کا معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ کے سامنے درخواست کی صورت میں اٹھانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے. ذرائع تحریک انصاف
اسلام آباد ( نیا محاز اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 جولائی ۔2024 ) پاکستان تحریک انصاف نے بطور فریق پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران 9اپریل 2022سے14اگست2023کے دوران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خالی رہنے والی نشستوں اور دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں 22جنوری2023سے فروری2024تک قائم رہنے والی نگران حکومتوں کے دورانیے پر سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروانے پر مشاورت مکمل کرلی ہے.

تحریک انصاف کے معتبر ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے وکیل اور اٹارنی جنرل کی جانب سے ایوان کو مکمل کرنے سے متعلق آئین کے تقاضے کے تحت مخصوص نشستیں مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی‘ایم کیوایم اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو دینے کے استدلال کے جواب میں پی ڈی ایم حکومت کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرنے اور صوبوں میں آئین میں تعین کردہ نوے دن کے اندر انتخابات نہ کروانے کا معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ کے سامنے درخواست کی صورت میں اٹھانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے.
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پارٹی کے127اراکین قومی اسمبلی مستعفی ہوگئے تھے جن میں سے بیس کے قریب اراکین نے رکن قومی اسمبلی نورعالم خان کی سرکردگی میں ایک گروپ بناکر استعفے واپس لے لیے تھے اور راجہ ریاض کو قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف نامزدکردیا گیا تھااس کے بعد خالی نشستوں کی تعداد 100سے زیادہ رہی اگست 2022میں اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف نے جنرل سیٹوں پر9 جبکہ مخصوص نشستوں پر2استعفے منظور کیئے تھے.

الیکشن کمیشن کی جانب سے9حلقوں میں ضمنی انتخابات کروائے تھے اور تحریک انصاف کی جانب سے ان تمام نشستوں پر سابق وزیراعظم عمران خان نے حصہ لیا تھا اور9میں سے بیک وقت8نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے انہوں نے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا. دوسری جانب قانونی وآئینی ماہرین کا کہنا ہے سابقہ اسمبلی میں نشستوں کے خالی رہنے کا معاملہ پچیدہ ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی جانب سے بھی آئین او رقانون میں موجود چوردروازوں کا راستہ اختیار کرکے استعفوں کو خاص مدت تک روکے رکھا تاکہ آئین میں دی گئی مدت کا مسلہ پیدا نہ ہو جس کے تحت ایک مقررہ مدت سے زیادہ عرصہ تک ایوان نامکمل نہیں رکھا جاسکتا اسی کے پیش نظر اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے استعفوں کی منظوری کو لٹکاتے رہے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں جہاں اور بہت ساری چیزوں کی وضاحت ضروری ہے وہیں اس راستے کو بھی بند کرنے کی ضرورت ہے پارلیمان کے کسی بھی رکن کو الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے بغیر ممبر تصور نہیں کیا جاتا لہذا اس معاملے کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے کہ جو رکن بھی مستعفی ہو الیکشن کمیشن پابند ہو کہ وہ اسے دو سے چار دن کے اندر ڈی سیٹ کرکے ضمنی انتخابات کا اعلان کردے
.
ان کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا کی جمہوری ریاستوں میں مثالیں موجود ہیں اسپیکر کا کردار اسمبلی کو رولزکے مطابق چلانے تک محدود ہونا چاہیے استعفی دینے اور اسے منظور کا یامسترد کرنے کا اختیار براہ راست الیکشن کمیشن کے پاس ہونا چاہیے اس سارے عمل میں سے اسپیکر کا کردار ختم کردیا جانا چاہیے اسی طرح سیاسی جماعتوں کے انٹراپارٹی انتخابات میں برسراقتدار جماعتوں کو نہیں پوچھا جاتا جس کی مثال نون لیگ کے انٹراپارٹی انتخابات کی صورت میں موجود ہے اگر اقتدار کے دوران تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن وقت دیتا رہا تو پی ڈی ایم حکومت کے دوران مسلم لیگ نون کا بھی یہی معاملہ رہا اور فروری2024میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سال بھر مسلم لیگ نون انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی یقین دہانیاں کرواتی رہی مگر پارٹی انتخابات مئی کے آخرمیں کروائے گئے .

انہوں نے کہا کہ انتخابی نشان کے معاملے میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کا کیس ایک جیسا تھا مگر ہمیشہ کی طرح آئینی ادارہ ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اسی طرح نون لیگ کو سہولت دی جس طرح ماضی میں تحریک انصاف کو دی گئی تو قانون دانوں کو اعلی عدلیہ کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروانی چاہیے کہ الیکشن کمیشن کے قوانین میں موجود ان خامیوں کو بھی دور کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے معاملات سے بچا جاسکے انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت عام شہریوں کو جتنے مسائل درپیش ہیں وہ شاید ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں رہے ہونگے مگر انتخابات کے بعد سے اعلی عدالتیں سیاسی مقدمات میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے عام شہریوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے اگر قانون میں موجود خامیوں کو دور کردیا جائے تو ایسے معاملات درپیش نہ آئیں انٹراپارٹی الیکشن میں بھی الیکشن کمیشن کے وقت دینے کے اختیار کو ختم کردیا جائے ہر پارٹی چاہے وہ قتدار میں ہو اپوزیشن میں وہ بروقت اپنے انتخابات کروائے .

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں