0

زرتاج گل کی سیاست

قومی نظام سیاست آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے،عام انتخابات 2024ء ہو چکے ہیں، اسمبلیاں معرض وجود میں آ چکی ہیں، آئینی عہدوں پر تعیناتیاں بھی ہو چکی ہیں، سیاسی عہدے بھی مکمل ہو چکے ہیں۔ نظام چل ہی نہیں رہا بلکہ چلتا ہوا نظر بھی آ رہا ہے حکومت بجٹ بھی پیش کر چکی ہے، صوبے بھی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں بجٹ پر بحث بھی ہو رہی ہے، تنقید بھی کی جا رہی ہے، لیکن معامات اپنی فطری رفتار سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

عمران خان،ہمنوا اور مولانا فضل الرحمن الیکشن2024ء میں دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں، پی ٹی آئی کا رونا دھونا فطری بات ہے،کیونکہ عمران خان کی سیاست مکر و فریب اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر استوار ہے اس لئے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کہنا بنتا ہے،کیونکہ انہوں نے اپنے ماننے اور چاہنے والوں کو ساتھ بھی تو رکھنا ہے، الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے،حالانکہ اسی الیکشن کمیشن نے کے پی میں بھی انتخاب کرائے ہیں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے اس پر اعتراض نہیں، لیکن جہاں مسلم لیگ(ن) اور اتحادیوں کی حکومت بنی ہے وہاں الیکشن کمیشن نے دھاندلی کرائی ہے، واہ کیا منطق ہے ویسے تو ان کی منطق ہے ہی ایسی کہ اگر وہ آرمی چیف کو ابا جی کہیں تو درست اور اگر موجودہ آرمی چیف کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے تعلقات اچھے ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔ قابل مواخذہ ہے، ان کی نظر میں، اگر ر یاستی ادارے عمران خان کی حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے تو اچھا تھا ایسا ہی اگر موجودہ حکومت کے لئے کیا جا رہا ہے تو درست نہیں۔عمران خان اور ان کی پارٹی اگر اقتدار میں ہو تو سب اچھا ہے الیکشن کمیشن بھی ٹھیک ہے، عدلیہ بھی ٹھیک ہے، فوج بھی ٹھیک ہے، آئی ایس آئی جو کچھ بھی کرے وہ ٹھیک ہے،لیکن اگر عمران خان اقتدار میں نہیں ہے تو سب کچھ درست نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن بھی ٹھیک نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان بھی ٹھیک نہیں، فوج اور آئی ایس آئی بھی ٹھیک نہیں ہے۔ واہ جی کیا منطق ہے کیسا رویہ ہے۔ معاملات اگر اپنے لئے موافق ہیں تو ٹھیک ورنہ غلط۔ عمران خان کے ایسے افکار اور اعمال کے نتیجے میں قومی سیاست میں گڑ بڑ محسوس ہوتی ہے،عدم استحکام کا تاثر پایا جاتا ہے۔ عمران خان کی پروپیگنڈہ مشینری فکری انتشار پھیلانے میں ید ِطولیٰ رکھتی ہے۔عمران خان بولتے وقت سوچتے نہیں ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، موجودہ حالات میں وہ ایک قومی ملزم کے طور پر جیل میں بند ہیں، ان کی پارٹی پر9مئی کے سانحے کا الزام ہے عمران خان ریاست اور حکومت کو للکارنے سے باز نہیں آ رہے وہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں،ویسے ایک سیاستدان کے طور پر ان کا حق بھی ہے لیکن اس کا ایک طریق واضح ہے سیاسی جدوجہد، ووٹ کی طاقت، لیکن وہ دھونس اور دھمکی کا استعمال کر کے، ریاست کو ڈرا دھمکا کر زیر بار لانا چاہتے ہیں۔عمران خان کی طاقت اور عظمت کا پول کھل چکا ہے ان کی عوامی مقبولیت کا جن، سوشل میڈیا کی بوتل میں محدود نظر آ رہا ہے وہ ایک طرف الیکشن2024ء کو دھاندلی زدہ قرار دے رہے ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتوں کو مان نہیں رہے ہیں۔دوسری طرف کے پی میں حکومت کرنے کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں، مرکز میں قائم کمیٹیوں میں شامل بھی ہو رہے ہیں، سربراہی بھی قبول کر رہے ہیں۔یہ دوعملی سب کو نظرآ رہی ہے وہ ایک طرف مولانا فضل الرحمن،اچکزئی اور دیگر رہنماؤں کے بارے میں جس بدزبانی کا مظاہرہ کرتے تھے وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کر رہے ہیں، اچکزئی صاحب کو انہوں نے اپنا نمائندہ مقرر کر دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔یہ کیا ہو رہا ہے یہ صریحاً منافقت نہیں ہے، دو عملی نہیں ہے؟عمران خان،ہمنوا اور مولانا فضل الرحمن الیکشن2024ء میں دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں، پی ٹی آئی کا رونا دھونا فطری بات ہے،کیونکہ عمران خان کی سیاست مکر و فریب اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر استوار ہے اس لئے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کہنا بنتا ہے،کیونکہ انہوں نے اپنے ماننے اور چاہنے والوں کو ساتھ بھی تو رکھنا ہے، الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے،حالانکہ اسی الیکشن کمیشن نے کے پی میں بھی انتخاب کرائے ہیں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے اس پر اعتراض نہیں، لیکن جہاں مسلم لیگ(ن) اور اتحادیوں کی حکومت بنی ہے وہاں الیکشن کمیشن نے دھاندلی کرائی ہے، واہ کیا منطق ہے ویسے تو ان کی منطق ہے ہی ایسی کہ اگر وہ آرمی چیف کو ابا جی کہیں تو درست اور اگر موجودہ آرمی چیف کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے تعلقات اچھے ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔ قابل مواخذہ ہے، ان کی نظر میں، اگر ر یاستی ادارے عمران خان کی حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے تو اچھا تھا ایسا ہی اگر موجودہ حکومت کے لئے کیا جا رہا ہے تو درست نہیں۔عمران خان اور ان کی پارٹی اگر اقتدار میں ہو تو سب اچھا ہے الیکشن کمیشن بھی ٹھیک ہے، عدلیہ بھی ٹھیک ہے، فوج بھی ٹھیک ہے، آئی ایس آئی جو کچھ بھی کرے وہ ٹھیک ہے،لیکن اگر عمران خان اقتدار میں نہیں ہے تو سب کچھ درست نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن بھی ٹھیک نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان بھی ٹھیک نہیں، فوج اور آئی ایس آئی بھی ٹھیک نہیں ہے۔ واہ جی کیا منطق ہے کیسا رویہ ہے۔ معاملات اگر اپنے لئے موافق ہیں تو ٹھیک ورنہ غلط۔ عمران خان کے ایسے افکار اور اعمال کے نتیجے میں قومی سیاست میں گڑ بڑ محسوس ہوتی ہے،عدم استحکام کا تاثر پایا جاتا ہے۔ عمران خان کی پروپیگنڈہ مشینری فکری انتشار پھیلانے میں ید ِطولیٰ رکھتی ہے۔عمران خان بولتے وقت سوچتے نہیں ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، موجودہ حالات میں وہ ایک قومی ملزم کے طور پر جیل میں بند ہیں، ان کی پارٹی پر9مئی کے سانحے کا الزام ہے عمران خان ریاست اور حکومت کو للکارنے سے باز نہیں آ رہے وہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں،ویسے ایک سیاستدان کے طور پر ان کا حق بھی ہے لیکن اس کا ایک طریق واضح ہے سیاسی جدوجہد، ووٹ کی طاقت، لیکن وہ دھونس اور دھمکی کا استعمال کر کے، ریاست کو ڈرا دھمکا کر زیر بار لانا چاہتے ہیں۔عمران خان کی طاقت اور عظمت کا پول کھل چکا ہے ان کی عوامی مقبولیت کا جن، سوشل میڈیا کی بوتل میں محدود نظر آ رہا ہے وہ ایک طرف الیکشن2024ء کو دھاندلی زدہ قرار دے رہے ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتوں کو مان نہیں رہے ہیں۔دوسری طرف کے پی میں حکومت کرنے کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں، مرکز میں قائم کمیٹیوں میں شامل بھی ہو رہے ہیں، سربراہی بھی قبول کر رہے ہیں۔یہ دوعملی سب کو نظرآ رہی ہے وہ ایک طرف مولانا فضل الرحمن،اچکزئی اور دیگر رہنماؤں کے بارے میں جس بدزبانی کا مظاہرہ کرتے تھے وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کر رہے ہیں، اچکزئی صاحب کو انہوں نے اپنا نمائندہ مقرر کر دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔یہ کیا ہو رہا ہے یہ صریحاً منافقت نہیں ہے، دو عملی نہیں ہے؟

ویسے یہ سب نظم سیاست و حکومت کو قائم اور جاری و ساری رکھنے کے لئے اچھا اور درست فیصلہ ہے۔عمران خان اور پی ٹی آئی کو منافقانہ سیاست کا یہ پہلو نظام کے لئے ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔عمران خان نے گنڈا پور کی صورت میں ایک جیالے کو کے پی کا وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے، وہ ایک روایتی پی ٹی آئی جیالا ہے اپنی احمقانہ حرکات کی وجہ سے مشہور و معروف ہے،لیکن گزرے چند ماہ کے دوران گو گنڈا پور اپنی روایتی حرکات و سکنات میں مصروف ہے، وہی احمقانہ اور مجرمانہ حرکات جاری ہیں، لیکن وہ ان تمام میٹنگز میں شریک رہے ہیں جہاں دیگر وزرائے اعلیٰ کی شرکت ضروری تھی،انہوں نے مشترکہ فیصلہ سازی میں بھی شرکت کر کے مثبت پیغام دیا ہے۔

زرتاج گل ایک منجھی ہوئی جیالی ہیں انصاف سٹوڈنٹ کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کر کے اور روایتی جاگیردار وڈیرے اویس لغاری کو2018ء میں شکست ِ فاش دے کر پارلیمان میں پہنچیں،انہیں عمران خان کی قربت اور سرپرستی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔2024ء کے انتخابات میں بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کے نمائندہ افراد کو شکست ِ فاش دے کر اسمبلی میں دوبارہ پہنچی ہیں۔9مئی کے واقعات ہوں یا تحریک انصاف کی پھلجھڑیاں، زرتاج گل، ان سب میں شریک ہو کر بھی متوازن کردار کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ پارٹی کے ساتھ وفاداری اور عمران خان کی قیادت پر ایمان کی حد تک یقین ان کی شخصیت کا خاصا رہا ہے، مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنی وزارت کے دور میں بھی بار بار لاہور آتی تھیں، اپنے وزیراعلیٰ بزدار سے اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے کاوشیں کرتی رہتی تھیں انہوں نے اسلام آباد کے پاور کاریڈور میں رہتے ہوئے بھی اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کے ساتھ رابطہ کمزور نہیں ہونے دیا ان کے مسائل کے حل پر توجہ مبذول رکھی۔یہی وجہ ہے کہ2024ء میں انہیں 2018ء سے بھی بڑی فتح نصیب ہوئی، جس طرح بے نظیر بھٹو، پہلی وزیراعظم اور مریم نواز شریف پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنی ہیں اسی طرح زرتاج گل پاکستان کی پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر بنی ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ یہاں بھی اپنا ایک نام اور مقام بنائیں گی، نظام کو جاری رکھنے والے عوام کے لئے کارآمد بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں