0

مجبوری ہو تو کیا آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا؟ کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں؟. چیف جسٹس

جو کچھ سال 2018 میں ہوا وہی موجودہ انتخابات میں ہوا جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انہیں اٹھا لیا گیا کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے؟جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد(اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 جون۔2024 ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ مجبوری ہو تو کیا آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا؟ کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں؟ اگرتحریک انصاف سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے الگ کیوں ہوئے؟ تحریک انصاف کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا.

مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سوال کیا کہ کیا آپ کی پارٹی کا آئین پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں جس پروکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہے کیونکہ یہ اتنا سادہ نہیں. سپریم کورٹ آف پاکستان کے 13 رکنی بینچ کے سامنے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وکیل سے دریافت کیا کہ بتائیں کہ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟دوسری جانب سپیکر خیبرپختونخوا کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے ہماری تین درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو بعد میں معاونت کے لیے تیار ہوں جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کی راہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ کیا وجہ تھی کہ تحریک انصاف کے امیدوار دوسری جماعت میں گئے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب میں کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ انتخابی نشان واپس ہو گیا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی پی ٹی آئی کے امیدواروں نے مجبوری میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ مجبوری ہو تو کیا آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا؟ کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سنیئر وکلا نے یہ فیصلہ کیا کہ تھا سنی اتحاد کونسل میں شمولیت میں کوئی حرج نہیں. چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل سے سوال کیا اگر تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا قبل ازیں سماعت شروع ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ چند عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتے ہیں ان کے مطابق فیصلوں میں آئینی تشریح کے لیے نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی اور مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا.
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو وہ آئین کی درست وضاحت کر دیں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں انہیں عوام نے ووٹ دیا ہے ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟.
فیصل صدیقی نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 و 106 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی اور یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر دی جائیں گی اور ہر جماعت کو یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی. سماعت کے دوران جسٹس عرفان سعادت نے وکیل سے استفسار کیا آپ کہہ رہے جو نشستیں جیت کر آئے انہیں مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں؟ جب سنی اتحاد کونسل نے الیکشن ہی نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات تو ختم ہو گئی جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم کیا انتحابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہو جاتی.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا اگر پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراﺅ میں آتا ہے سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا.
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے صدر تھے انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی جماعت نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی چیف جسٹس نے کہا اگر پارلیمان میں 90 فیصد آزاد امیدوار جیتتے ہیں تو مخصوص نشستیں باقی 10 فیصد جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو ملیں گی.
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی فہرست بعد میں دی جا سکتی ہے چیف جسٹس نے جواب دیا آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آ جائے گاپی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے. جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ سال 2018 میں ہوا وہی موجودہ انتخابات میں ہوا جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انہیں اٹھا لیا گیا کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ ان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں.
اس معاملے پر گذشتہ سماعت چار جون کو ہوئی تھی جبکہ تین جون کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے مکمل جمہوریت نہیں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ایک مفروضے پر چلتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت سو نشستوں پر انتخابات لڑتی ہے اور ہر سیٹ پر ایک ووٹ سے ہار جاتی ہے تو جمہوریت کی ر±و سے وہ سو کی سو سیٹیں ہاری ہے، وہ خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار نہیں ہو گی، یہ ایک ہائبرڈ نظام ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں