0

لڑائی میں مزید شدت،غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اب بھی ممکن

رفح میں حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ شہر کی گلیوں میں لڑ رہے ہیں حزب اللہ فورسز کی جانب سے اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی
غزہ ( نیا محاز اخبارتازہ ترین – این این آئی۔ 14 جون2024ء) غزہ کے جنوبی شہر رفح میں حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ شہر کی گلیوں میں لڑ رہے ہیں۔دوسری جانب اسرائیل کی شمالی سرحد پر لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ فورسز کی جانب سے اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے۔اسرائیل جس نے غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے حماس کی اتحادی حزب اللہ کے ساتھ تقریباً روزانہ فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے، کہا کہ وہطاقت سے جواب دے گا۔
جنگی طیاروں، اپاچی ہیلی کاپٹروں اور کواڈ کاپٹروں کے علاوہ اسرائیلی توپ خانے اور فوجی جنگی جہازوں سے شدید گولہ باری کی گئی، یہ سب رفح کے مغرب میں واقع علاقے کو نشانہ بنا رہے تھے۔حماس نے کہا ہے کہ اس کے جنگجو مصر کے ساتھ سرحد کے قریب شہر کی گلیوں میں اسرائیلی فوجیوں سے لڑ رہے ہیں۔

غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر غیرمعمولی حملے کے بعد ہوا جس کے نتیجے میں 1194 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

عسکریت پسندوں نے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے 116 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 41 ہلاک ہو چکے ہیں۔حماس کے زیر اقتدار علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 37 ہزار 232 افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔وزارت صحت نے مزید کہا کہ گزشتہ روز اس میں 30 مزید اموات کا اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔
جب اسرائیل نے رفح میں زمینی کارروائی کا آغاز کیا تو جنگ بندی تک پہنچنے کی کوششیں تھم گئیں تاہم مئی کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کو محفوظ بنانے کے لیے ایک نئی کوشش کا آغاز کیا تھا۔پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی قرارداد منظور کی تھی۔صدر جو بائیڈن کی جانب سے تجویز کردہ معاہدے کے حوالے سے بدھ کے روز دوحہ میں انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ واشنگٹن علاقائی شراکت داروں کے ساتھ معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے کام کرے گا۔
حماس نے ثالث قطر اور مصر کو جواب دیا تھا تاہم بلنکن نے کہا کہ اس کی مجوزہ ترامیم میں سے کچھ ’قابل عمل ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔حماس کے سینئر اہلکار اسامہ ہمدان نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم نے مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کے مستقل انخلا کا مطالبہ کیا ہے تاہم یہ مطالبات اسرائیل نے بار بار مسترد کیے ہیں۔امریکی صدر کی تجویز کردہ منصوبے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ اور غزہ کی تعمیر نو شامل ہے۔
گزشتہ نومبر میں لڑائی کے دوران ایک ہفتے کے وقفے کے بعد یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی کے بعد یہ پہلی جنگ بندی ہو گی۔انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جن کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے ارکان اس معاہدے کی سخت مخالفت کرتے ہیں، نے عوامی سطح پر اس کی تائید نہیں کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں