بڑھاپے کے بہت سے نقصانات بھی ہیں اور فائدے بھی۔ نقصانات کی جڑ، بڑھاپے کی مفلسی ہے۔ اگر آپ نے روپے پیسے کوتوشہء آخرت نہیں بنایا اور بڑھاپا وارد ہو گیا ہے تو آپ کو کبھی نہ کبھی ظاہری یا باطنی رسوائی کا سامنا ضرور ہو گا۔ اولاد کی پرورش والدین کا فریضہ ہے لیکن بڑھاپے میں والدین کی پرورش اور دیکھ بھال،اولاد کے فریضے میں بطورِ اخلاق و آداب تو شامل ہے لیکن اولاد کا فرمانبردار ہونا یا نہ ہونا کسی انسانی قاعدے کلیئے میں نہیں آتا۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ جب آپ کے والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کے سامنے ”اُف“ تک نہ کرو۔
مبارک ہے وہ اولاد جو ”اُف“ نہیں کرتی۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس ”اُف“ کے آداب بھی تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ اورنگزیب عالمگیر نے ساڑھے آٹھ برس تک اپنے والد کو آگرہ کے قلعے میں قید رکھا۔ شاہجہان کی غلطیوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا لیکن اورنگزیب کی غلطی بھی تاریخ کی ایک بے مثال غلطی تھی۔ شاہجہان نے بڑھاپے کا خیال نہ کیالیکن اپنی اور اپنے حکمران بیٹے کی رسوائی کا سامان ضرور کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مغلوں کی روائت تھی کہ وہ قوت کو رشتے داری پر فوقیت دینے کے عادی تھے…… ہمایوں سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کی تاریخ پڑھ لیجئے۔ آپ کو انسانی آداب اور شاہی آداب میں جگہ جگہ جو فرق نظر آئے گا وہ ناقابلِ یقین ہوگا۔ لیکن برصغیر کے باسیوں نے 1526ء میں بابر کی تخت نشینی سے لے کر بہادر شاہ ظفر کی معزولی تک (1857ء میں) حکمرانی کے جن گمراہ کن نشیبوں کا سامنا کیا وہ اس خانوادے کی ساڑھے تین سو سال تک کی عظیم بادشاہی کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔
میں شاہی آداب کا ذکر نہیں کرتا۔شہنشاہوں اور بادشاہوں کی تاریخ سے عالمی تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں …… لیکن کیا ہم اس تاریخ سے یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ ایک اوسط انسان کے لئے بڑھاپے کے دکھوں کا مداوا کیا ہے؟
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر انسان کو بڑھاپے کے لئے کچھ نہ کچھ پس انداز کر لینا چاہیے۔ اولاد لاکھ ثروت مند اور وفادار ہولیکن وہ آپ کے بڑھاپے میں آپ کی حسبِ خواہش وہ اہتمام نہیں کر سکتی جس کی آپ کو آرزو ہوتی ہے۔ آپ کے سامنے ہر روز ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ جن پر آپ کی انگلیاں کانوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ بازاروں میں گداگروں کو دیکھئے۔ ان سے پوچھئے کہ ان کی اولاد بھی تھی یا وہ ”لاولد“ ہیں۔ آپ کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملے گا۔ یہ گداگر جدی پشتی فقیر نہیں ہوتے۔ جوانی میں شادی کی، بیوی بچوں کو پالا پوسا، ان کی شادیاں کیں اور اس کے بعد چونکہ اپنے بڑھاپے کے لئے کچھ ”پس انداز“ نہ کیا اس لئے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑے…… یہ مسئلہ ایک انسانی اور اخلاقی مسئلہ ہے اور پاکستان جیسے غریب و نادار ملک اس مسئلے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں …… یہ بڑھاپے کا ایک بڑا نقصان ہے جس کی ذمہ داری بہت حد تک خود آپ پر عائد ہوتی ہے۔
اور دوسری طرف بڑھاپے کے فائدے بھی بے شمار ہیں۔ غالب کا شعر ہے:
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
لیکن تندرستی ہمیشہ نہیں رہتی۔ وقفے وقفے سے یہ غائب ہو جاتی ہے اور بیماری کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس غیاب و حضور میں بھی آپ کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ اگر آپ جیب کے مالدار ہیں تو شکم کے مالدار مت بنیئے۔شکم کی مالداری ہی دراصل ہماری بیماریوں کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔
شوگر اور بلڈ پریشر آج کل کی دو عام اور اہم بیماریاں شمار ہوتی ہیں۔ یہ کیوں ہوتی ہیں ان کی وجوہات ہم آئے روز میڈیا پر دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ اب تو اَن پڑھ لوگ بھی جانتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے اور بلڈپریشر کے ہائی یا لو (Low)ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم اشیائے خوردونوش کے استعمال میں اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس میں امیر و غریب کی کوئی تمیز نہیں۔ مبارک ہیں وہ چند لوگ جو جوانی میں ان اشیائے خوردونوش کے استعمال میں ”پرہیز“ سے کام لیتے ہیں۔
ہمارے میڈیا پر اس موضوع پر کوئی مسلسل ہفتہ واری پروگرام پیش نہیں کیا جاتا۔ سارا وقت سیاسیات کی نذر کر دیاجاتا ہے۔ تفریحات، ڈراموں، فلموں وغیرہ پر مختلف چینل پروگرام پیش کرتے ہیں لیکن کیا آج تک ہمارے ہاں کوئی ایسا چینل بھی ہے جس میں صحت، بیماری اور اس کے علاج کا بطورِ خاص تذکرہ کیا جائے؟ میری نظر میں جرم و سزا اور سیاسیات پر جتنا وقت یہ چینل لگاتے ہیں اس کا اگر عشرِ عشیر بھی ”صحت و بیماری“ پر لگا دیں تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔
بڑھاپے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کچھ لکھ پڑھ لیتے ہیں تو اس لکھائی پڑھائی کو ”عام“ کرنے کا ایک طریقہ ”کالم نگاری“بھی ہے۔بڑھاپے میں زندگی کی اچھی بری یادیں آپ کے دل و دماغ پر دستک دیتی رہتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس دستک کی وجوہات سرتاسر سیاسی ہوں، ’غیر سیاسی کالم‘ لکھنے کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔ مبارک ہیں وہ کالم نویس جو یہ اہتمام کرتے ہیں اور پاکستانی پبلک کو ایک مثبت موضوع کی طرف لے جاتے ہیں۔
آٹھوں پہر مہنگائی، بدامنی، کرپشن، ہنگامہ آرائی، سیاسی آویزش کا ذکر کرنے سے کیا ان موضوعات کی گہرائی اور گھمبیرتا میں کوئی ٹھہراؤ آتا ہے؟…… میرے خیال میں یہ گھمبیرتا اور بڑھ جاتی ہے۔ کسی بھی بڑے یا ”چھوٹے“ کالم نگار کے قلم سے جو کالم ان فرسودہ موضوعات پر لکھے جاتے ہیں وہ صرف پرنٹ میڈیا کا پیٹ بھرتے ہیں، پبلک کی شکم پروری کا کچھ سامان ان کالموں سے نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں اگر یہ کام کرنے کی توفیق آپ کو عطا ہو تو اس سے گریز مت فرمایئے۔
ہر انسان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور اچھے کام بھی ”سرزد“ ہوتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ڈھنڈورہ پیٹنے کی بجائے اپنی غلطیوں، فروگزاشتوں اور کمزوریوں کے تذکرے بھی ضرور کیجئے۔ یہ تذکار آپ کا قد کاٹھ چھو ٹا نہیں کرتے۔ ملٹری ہسٹری کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے مجھے عظیم کمانڈروں کی خودنوشتوں میں درجنوں ایسے واقعات پڑھنے کو ملے ہیں جو ان کی انسانی جبلتوں اور کمزوریوں کا اعتراف ہوتے ہیں۔ یہ خود نوشتیں بڑھاپے میں لکھی جاتی ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے سیاستدانوں، جرنیلوں (اور شاید ججوں) سے بھی ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ جن کے نتائج اور اثرات اقوامِ عالم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔آج تک میری نظر سے کوئی ایسی خودنوشت نہیں گزری جس میں صاحبِ تصنیف کے سٹرٹیجک بلنڈر بھی درج ہوں۔یہ بوجھ بالآخر قاری پر آن پڑتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ماضی کے ان بلنڈرز کے اثرات بنی نوعِ انسان پر کیا پڑے…… بزرگ کالم نگار حضرات اگر یہ بیڑا بھی اٹھالیں تو اس سے بہتوں کا بھلا ہو سکتا ہ
حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے ادب و اخلاق کی یہ اچھی باتیں کہاں سے دیکھیں۔ اس کا جواب تھا کہ بے ادبوں اور بداخلاقوں سے…… اگر پڑھے لکھے بوڑھے حضرات بھی یہ قول یاد کرلیں تو اس میں بھلائی کا عنصر، برائی کی نسبت زیادہ ہوگا۔ میرے کالموں کا موضوع (شمشیروسناں) بھی مجھے ایک طویل مدت پہلے اسی طرف لے گیا تھا۔ میری یہ سطور اگرچہ ذوقِ استفہام کا جواب ہیں لیکن سوچتا ہوں شاید یہ ڈگڈگی کسی خوابیدہ آنکھ کو جگا دے:
خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے
وہ اثر رکھتی ہے خاکسترِ پروانہء دل