0

سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کے افسران کے ملنسار اور دبنگ ہونے کے چرچے لیکن اصل میں شہریوں کیساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ ر

لاہور (نیا محاز ) سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کے افسران کے ملنسار اور دبنگ ہونے کے چرچے ہیں، اہلکاروں و افسران کے صرف اچھے کاموں کی ہی ویڈیوز سامنے لائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے صرف عوام کو وہی دکھایا جاتا ہے جس کے چرچے ہوں لیکن کیمرے کے پیچھے کم ہی معلوم ہوتا ہے لیکن اب روزنامہ پاکستان کے کرائم رپورٹر یونس باٹھ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔

روزنامہ پاکستان میں چھپنے والے کالم میں یونس باٹھ نے لکھا کہ ’’ ایک شہری نے ایک سینئر پولیس آفیسرز سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر خود کو آگ لگالی رپورٹ کے مطابق آئی جی آفس کے باہر خود کو آگ لگانے والا شہری اصغر سہیل لاہور کے علاقے کماہاں کا رہائشی ہے وہ گروی پر لیے گئے ایک مکان میں رہائش پذیر تھا مالک مکان کی جانب سے پیشگی نوٹس دیئے بغیر گھر خالی کروانے پر احتجاج کیلئے آئی جی آفس پہنچا،متاثرہ شخص صبح سے آئی جی آفس کے باہر پنجاب پولیس کے سربراہ سے ملاقات کیلئے انتظار میں بیٹھا تھا سکیورٹی پر مامور حکام کی جانب سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر اسنے خود کو آگ لگالی، شہری کو بچاتے ہوئے پولیس اہلکار عادل بھی جھلس کر زخمی ہو گیا۔
سہیل اصغر کا کہناہے کہ اس نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے ازالے کے لیے مقامی پولیس سے رابطہ کیا،مگر کسی نے اس کی بات پر توجہ نہ دی بالآخر پولیس کے رویے سے تنگ آکراس نے سوچا کہ سینئر پولیس افسران سوشل میڈیا پر آئے روز مختلف لوگوں سے ملاقات کرتے نظر آتے ہیں میں بھی انہیں مل کر اپنا مسئلہ بتاونگا وہ یہ سوچ لے کر گھر سے نکلا ہو گا کہ جیسے ہی اس کی سینئر پولیس افسران سے ملاقات ہوگی سارے دکھ درد دور ہوجائیں گے لیکن یہ تو اس کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اس کے سارے دکھ درد دور ہونے کی بجائے وہ مزید تکالیف اور پریشانی کا شکار ہوجائے گا۔راقم نے چند ایک سینئر صحافیوں اور پولیس افسران سے اس بارے میں بات کی اور کہا سینئر پولیس افسران تو انتہائی اچھے اور ملنساز پولیس آفیسرز ہیں انہوں نے تو کبھی کسی کو ملاقات سے منع نہیں کیا جو بھی ملنے کی خواہش رکھتا ہو وہ ان سے باآسانی ملاقات کرلیتے ہیں۔
پولیس افسران اور صحافیوں نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ سینئر پولیس افسران بڑے پراؤڈ ہیں اور ہر کسی کا ان سے ملنا آسان نہیں ہے۔ سینئر پولیس افسران کو بیٹ رپورٹرز پرسنل اور ضروری کام کے جتنے مرضی مسیج کرلیں وہ انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دیتے۔ عام شہری کی کیامجال ہے کہ ان سے ملاقات کرپائیں۔ایک سینئر کرائم رپورٹرز نے بتایا کہ وہ کسی پولیس آفیسرز سے ملاقات کے خواہاں تھے پولیس آفیسرز نے بھی ملاقات کا اگلے روز ٹائم دے رکھا تھا اس نے سوچا چلو سینئر پولیس افسران سے بھی ایک کال کی ریکوسٹ کرلیتے ہیں اس نے ایک سینئر پولیس آفیسرز کو ریکوسٹ کا مسیج بھیجا۔ سینئر پولیس آفیسرز نے وائس میسج کردیا کہ مذکورہ آفیسرز پاکستان میں نہیں ہیں وہ دودن پہلے دس روز کی ایکس لیو پر جاچکے ہیں رپورٹر کے مطابق اگلے ہی روز اس کی آفیسرز سے ملاقات بھی ہوگئی۔
یہ ہی نہیں ایک اور سینئر کرائم رپورٹرنے بتایا کہ ضلع شیخوپوہ تھانہ فیروز والا کی حدود میں اس کے قریبی دوست کے ساتھ بنک سے نکلتے ہوئے 42لاکھ کی ڈاکوؤں نے تعاقب کرکے نقدی لوٹ لی مقدمہ درج ہونے کے تین چار ماہ بعد مقامی پولیس کے ایک تھانیدار کا فون آیا کہ آپ کے ڈاکو ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں آکر رقم لے جائیں جب وہ رقم لینے پہنچا تو تھانیدا نے کہا کہ آپ کے مقدمے کے ڈاکو تو گرفتار نہیں ہو سکے البتہ ڈی پی او صاحب کی ہدایت پر ہم 10 لاکھ نقدی آپ کو دے رہے ہیں آپ اپنی ریکوری پر سائن کردیں اس نے پوری رقم کا مطالبہ کیا جو کہ اسے نہ مل سکی جس پر اس نے دس لاکھ بھی نہ لیے اور ایک سینئر پولیس آفیسرزسے ریکوری کا مطالبہ کیا حالانکہ وہ اپنی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مقامی پولیس کے حوالے کرچکے ہیں جبکہ مقامی پولیس واردات کو ٹریس کرنے،جیو فینسنگ اور سی ڈی آر کے نام پر ان سے ایک لاکھ روپے سے زائد نقدی بطور رشوت وصول کرچکی ہے۔
ریکوری تو کیا اب وہ دس لاکھ سے بھی گئے ہیں۔اصغر سہیل کو کیا معلوم کہ ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور“ اصغر سہیل جس سینئر پولیس آفیسرزسے اپنے لیے آسانیاں سوچ رہا تھا۔شاید وہ یہ بھول گیا ہے کہ نگران حکومت کے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے انہیں بلاوجہ سوشل میڈیا کے استعمال سے روک دیاہے اور پنجاب پولیس کو ہر اجلاس میں کارکردگی کو بہتر بنانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

واضح رہے آئی جی آفس کے سامنے یہ پہلاواقعہ نہیں ایک ہفتہ کے دوران دوسراواقعہ پیش آیا ہے۔یکم جون کو جھنگ کا رہائشی عابد حسین اپنے کزن احمد اور علی کے ہمراہ شادی کی تقریب پر لاہور آیا تھا، عابد حسین آئی جی آفس کے قریب پیدل جا رہا تھا، تین مسلح موٹر سائیکل سواروں نے اسے روک لیا۔مزاحمت پر عابد حسین اور اس کے دیگر ساتھیوں نے ایک ڈاکو کو دبوچ لیا جبکہ دو موقع سے فرار ہونے کے چند منٹ بعد دوباہ آئے اور اپنے ساتھی ڈاکو کو چھڑانے کی غرض سے عابد حسین پر اند دھند فائرنگ کردی جس سے عابد ہلاک جبکہ ایک راہگیر بلال زخمی ہو گیا اور ڈاکو اپنے ساتھی کو چھڑانے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے آئی جی آفس کی سیکورٹی اگر بروقت کارروائی کرتی تو عابد حسین کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
سہیل اصغر،پولیس افسران اور صحافیوں کے الزامات پر ہمیں یقین نہیں کرنا چاہیے جن پولیس افسران کو میں جانتا ہوں وہ انتہائی ملنساز اور درد دل رکھنے والے پولیس آفیسرز ہیں اگر ان پولیس افسران کوسہیل اصغر کی دفتر کے باہر موجودگی اور پریشانی کی اطلاع مل جاتی تو وہ یقینا اسے اپنے پاس لازمی بلواتے چائے کیساتھ اس کا مسئلہ بھی حل کرواتے اور اپنی تصویر کے ساتھ اس کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے۔جہاں تک ایک کرائم رپورٹرز نے کسی آفیسرز کو کال کروانے کا الزام لگایا ہے ہو سکتا ہے ایک سینئر پولیس آفیسرز کو اس کے مسیج کی سمجھ نہ آئی ہو اور جہاں تک ریکوری کی بات ہے۔

ایک سینئر پولیس آفیسرز کی یقینا یہ خواہش ہوگی کہ ریکوری ہونی چاہیے اگر ڈی پی او ان کی بات نہ مانیں تو اس کا الزام آپ ایک سینئر پولیس آفیسرز کو نہیں دے سکتے تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کوایسی خامیوں کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ ادارے ان کی گڈ گوررنس کا باعث بن سکیں۔ خبر ہے کہ ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور اور ان کی ٹیم نے شہر میں لاوارث بچوں سے بدفعلی کرنے والے ایک گینگ کے چار ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔گرفتار ملزمان ایک پریشان کن معاوضہ لینے والے جنسی زیادتی کے سکینڈل میں ملوث تھے ملزمان نے اپنے گینگ کے زیر انتظام سرائے میں بچوں کو جنسی زیادتی کے گھناؤنے مقصدکے لیے ترتیب دینے کا اعتراف کیا ہے۔

سرائے میں آنے والے مہمانوں سے ان گھناؤنی حرکتوں کے لیے 500سے ایک ہزار تک رقم وصول کی جاتی اس گھناؤنے جرم میں سرائے کے مالکان اور مینجرز بھی ملوث پائے گئے ہیں یہ واقعات زیادہ تر داتا دربار کے قریب واقع سراؤں میں پیش آئے پولیس نے ان کے قبضے سے آٹھ بچوں کو بازیاب بھی کروایا ہے جبکہ جرائم پیشہ گروہ کے مزید ارکان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں‘‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں