تحریر : امبر جبین
محکمہ خزانہ پنجاب کی ذمہ داری صوبے کے اخراجات پورے کرنا اور حکومتی اقدامات کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا ہے۔ اس اعتبار سے محکمہ خزانہ کا بنیادی وظیفہ بجٹ سازی ہے، جس کے لیے سالانہ بنیادوں پر آمدن اور اخراجات کے تخمینے لگائے جاتے ہیں۔ دونوں میں توازن پیدا کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کے ذریعے حکومتی وسائل میں اضافہ ممکن ہو۔
حکومتی آمدن کا بیشتر انحصار ان محصولات پر ہوتا ہے جو حکومت اپنی خدمات کے بدلے میں عوام سے وصول کرتی ہے۔ ان محصولات سے حاصل ہونے والے وسائل کو ترقیاتی مقاصد اور معاشرے کے ان طبقات پر خرچ کیا جاتا ہے جو اپنی معذوری یا محدود وسائل کے سبب زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں
۔پنجاب میں 26 فروری 2024 کو اقتدار میں آنے والی جماعت نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں اپنی گورننس کا آغاز اسی طبقہ کے مسائل میں کمی سے کیا۔ جس وقت وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اقتدار سنبھالا، اس وقت ماہ رمضان کی آمد آمد تھی۔ وزیر اعلیٰ نے وزارت کا حلف لینے کے بعد سب سے پہلا اعلان رمضان نگہبان پیکج کا کیا۔ محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوری بنیادوں پر 30 ارب روپے مختص کیے گئے جس سے 65 لاکھ گھرانے اور ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد مستفید ہوئے۔ یہ ایک تاریخی اقدام تھا جس سے عوام کو بڑا ریلیف ملا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 26 فروری سے آئندہ 21 دن میں 28 نئے منصوبوں کا اعلان کیا، جبکہ نگران حکومت رواں مالی سال کے پہلے 3 کوارٹرز کے اخراجات کے لیے بجٹ مختص کر چکی تھی۔ منتخب حکومت کے پاس نئے منصوبہ جات کے لیے فنڈز کی منظور ی اور اجراء کے لیے بہت محدود وقت تھا۔ اتنے محدود وقت میں بجٹ کی تیاری اور 28 بڑے منصوبوں کے لیے فنڈز کی فراہمی حکومت اور محکمہ خزانہ کے لیے بھی ایک بڑا امتحان تھا۔
تاریخ میں پہلی بار اتنے مختصر وقت میں نہ صرف بجٹ کی تیاری اور منظوری کو ممکن بنایا گیا بلکہ فنڈز کے اجراء کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے 28 منصوبوں پر کام کے آغاز کو بھی یقینی بنایا گیا۔
3 ماہ کے بجٹ میں ترقیاتی مقاصد کے لیے مجموعی طور پر 299 ارب روپے مختص کیے گئے جن میں 40 ارب روپے سے دیہی مراکز صحت (RHCs) اور بنیادی مراکز صحت (BHUs) کی مشینوں کی صفائی اور مرمت کے 4 پروگرام، 30 ارب روپے کی لاگت سے نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ کے نام سے جدید ترین کینسر ہسپتال، 10 ارب روپے کی لاگت سے نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سرگودھا، 10 ارب روپے سے پاکستان کے سب سے بڑے نواز شریف آئی ٹی سٹی لاہور کا قیام، 2 ارب روپے سے پنجاب ایجوکیشن پروگرام، 1.5 ارب روپے سے لیپ ٹاپ پروگرام، ایک ارب روپے سے وزیر اعلیٰ انٹرن شپ پروگرام، 2 ارب روپے پنجاب ایگری کلچر ٹرانسفارمیشن پروگرام، اور 2.5 ارب روپے سے ایگری کلچر مالز شامل ہیں جہاں کسانوں کو ان کی ضروریات کے مطابق بیج، کھادیں، اور تمام زرعی ادویات و آلات ایک چھت کے نیچے دستیاب ہوں گے۔
اس کے علاوہ 3 ماہ کے ترقیاتی بجٹ میں وزیر اعلیٰ کے پہلے 28 منصوبوں میں سے 320 ارب روپے کے 82 سڑکوں اور شاہرات کی تعمیر و مرمت کے منصوبے کے لیے بھی فنڈز مختص کیے گئے، جبکہ 10 ارب روپے سے پنجاب روز انفراسٹرکچر پروجیکٹ کے آغاز کو یقینی بنایا گیا۔ اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کے لیے 5 ارب روپے، الیکٹرک بسوں کے لیے 2 ارب اور الیکٹرک بائیکس کے لیے 1 ارب روپے کی گنجائش پیدا کی گئی۔ 7 ارب روپے سے ستھرا پنجاب پروگرام کا آغاز بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے ابتدائی 28 منصوبوں کا حصہ ہے۔
مارچ میں رواں مالی سال کے بجٹ کی کامیابی کے ساتھ منظوری کے بعد محکمہ خزانہ پنجاب آئندہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے۔ یعنی حکومت کے ابتدائی 100 دن میں محکمہ خزانہ پنجاب دوسری بار بجٹ کی تیاری کےلیے سرگرم عمل ہے۔ جمہوریت کے سنہری اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے نئی حکومت بجٹ سازی کے عمل میں تمام عوامی نمائندگان کو بھرپور شمولیت کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے بجٹ سازی کے عمل کے آغاز سے قبل پنجاب اسمبلی میں سوالناموں کے ذریعے سروے کر کے تمام اراکین سے ان کی تجاویز اکٹھی کی جا چکی ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ سوالناموں کے علاوہ تقریری شکل میں بھی اپنی آراء کا اظہار کر سکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر سروس ڈیلیوری میں بہتری اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کی فراہمی کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بھرپور استفادے کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ صوبے میں سرمایہ کاری اور کاروبار میں آسانی کے لیے پائیدار اقدامات لیے جا رہے ہیں۔ صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یکساں مواقع مہیا کیے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں میں دستاویزی معیشت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب ریونیو اتھارٹی کے تحت سیلز ٹیکس ان سروسز کے دائرہ کار کو وسعت دی جا رہی ہے۔ محکمہ خزانہ پنجاب معیشت کی ڈاکومینٹیشن کے لیے پلاسٹک کارڈز (کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز) کے ذریعے ٹیکس ادا کرنے والوں کے لیے خصوصی رعایت تجویز کر رہی ہے۔ کاروباری شخصیات اور عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے شفافیت اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کی بجائے ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
صوبے کے ذاتی وسائل میں اضافے کے لیے محصولات کے نظام کو ڈیجیٹلائز کر کے بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کے امکانات کو کم سے کم کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ادائیگیوں اور لین دین کے معاملات کی ڈیجیٹلائزیشن جہاں شفافیت کو یقینی بنائے گی، وہیں دستاویزی معیشت کا فروغ بھی ممکن ہو گا۔ آئندہ مالی سال کے لیے وسائل کے تخمینوں میں بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ ٹیکسز کی شرح میں اضافے کے ذریعے صوبے کے عوام پر ٹیکسز کے بوجھ کو بڑھانے کی بجائے ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو صاحب حیثیت ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ خزانے پر سرکاری اخراجات کے بوجھ میں کمی کے لیے غیر ضروری بھرتیوں اور دیگر مراعات پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کی اس سادہ پالیسی کو اختیار کیا جا رہا ہے جس کے مطابق اضافی مراعات اور ترقی کے حق دار صرف وہ سرکاری افسران اور ملازمین ہیں جو اپنے فرائض کو بہترین انداز میں سر انجام دے رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ٹیم صوبے میں اسی خوشحالی کی بحالی کو یقینی بنا رہی ہے جس کا آغاز سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا تھا۔