یقیناً شور دریا کا جگر میں منتقل ہوگا
سفینہ درد کا جب بھی بھنور میں منتقل ہوگا
تجھے شہکار ہوتے ایک دن دیکھے گی یہ دنیا
مرا دیوانہ پن جس دن ہنر میں منتقل ہوگا
نہ اب ڈوبے گا سورج غم کا جو خوشیوں سے نکلا ہے
نہ اب واپس کوئی سایہ شجر میں منتقل ہوگا
سبھی آرائشِ محفل میں ہیں گم ہوش کس کو ہے
اثاثہ رنگ محلوں کا کھنڈر میں منتقل ہوگا
دریچے وا اسی امید پر آنکھوں کے رکھے ہیں
کبھی تو رات کا منظر سحر میں منتقل ہوگا
نہ آئیں گے حوالے کام کچھ پکے مکانوں کے
بدن مٹی کا جب مٹی کے گھر میں منتقل ہوگا
کئی منظر بھی ابھریں گے حسیں یادوں کے ملبے سے
یہ منظر بے گھری کا جب نظر میں منتقل ہوگا
کلام :نوشاد اشہر اعظمی (بلریا گنج اعظم گڑھ، بھارت )