0

سپریم کورٹ کا نظرثانی درخواستوں کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری، غیر ضروری اپیلوں کی حوصلہ شکنی کی ہدایت

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کا اہم تحریری فیصلہ سامنے آ گیا ہے جس میں نظرثانی درخواستوں کے دائرہ کار کی واضح وضاحت کی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست صرف آئین کے آرٹیکل 188 اور سپریم کورٹ کے قواعد کے تحت ہی دائر کی جا سکتی ہے۔ محض فریقین میں سے کسی ایک کی ناراضی یا عدم اطمینان نظرثانی کا جواز نہیں بن سکتا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست تب ہی قابل سماعت ہو سکتی ہے جب اس میں کسی واضح قانونی یا فنی غلطی کی نشاندہی کی جائے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے نکات جو اصل کیس کے دوران پہلے ہی مسترد کیے جا چکے ہوں، انہیں دوبارہ نظرثانی کے دوران نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس دلیل کو بھی ناقابل قبول قرار دیا گیا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی دوسرا نقطۂ نظر شامل کیا جا سکتا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بنچ کے اس فیصلے میں مقدمات کے بڑھتے بوجھ پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ عدالت کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے 56 ہزار سے زائد صرف سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد غیر ضروری اور بے بنیاد نظرثانی درخواستوں پر مشتمل ہے جن کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
دوسری جانب آج سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر 13 رکنی فل کورٹ بنچ نے سماعت کی، جس کی سربراہی جسٹس سید امین الدین خان کر رہے ہیں۔ بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مسرت ہلالی اور دیگر ججز شامل ہیں۔ یاد رہے کہ 12 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں پر نمائندگی دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا، تاہم وہ موجودہ نظرثانی بنچ کا حصہ نہیں ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں