ایک پارٹی کا جو رویہ ہے اس سے جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی، پہلے سیاسی جماعتیں بات کریں اس کے بعد اداروں کا کردار ہوگا۔ وزیراعظم کے مشیر کی گفتگو
اسلام آباد (نیا محاز اُردو اخبارتازہ ترین۔ 13 مئی 2024ء ) وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ کسی اور کی ایما پر گرینڈ ڈائیلاگ کی پیشکش کی بات غلط ہے، گرینڈ ڈائیلاگ کی پیشکش اپنے لیڈر اور اپنی جماعت کی ایما پر کر رہا ہوں، بانی پی ٹی آئی کو پال پوس کر مسلط نہیں کیا جاتا تو ان کی ایک ہی سیٹ رہتی۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مینار پاکستان کے جلسے میں نواز شریف نے قوم کے سامنے ڈائیلاگ کا کہا، پہلے سیاسی جماعتیں بات کریں اس کے بعد اداروں کا کردار ہوگا، بانی پی ٹی آئی عمران خان اس وقت سے کہہ رہے ہیں کسی سے بات نہیں کروں گا، جمہوری رویوں میں اس طرح کی بات کا کوئی تعلق نہیں، ایک آدمی پارلیمانی سسٹم میں اپوزیشن سے بات نہ کرے تو حل کیا ہے، ایک پارٹی کا جو رویہ ہے اس سے جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی۔
وفاقی مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے یہ بھی کہا کہ اگر ڈائیلاگ ہوا تو پھر عمران خان کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ غیرمشروط ہوگا، گریٹ ڈائیلاگ میں ادارے بھی شامل ہوں گے،عدالتی اسٹے کی وجہ سے9 مئی کے بے گناہ ملزمان بھی جیلوں میں ہیں، اس کا ٹرائل ہونا چاہیئے جو ملوث ان کوسزا دی جائے بے گناہ گھروں کو جائیں، عمران خان کسی کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کو تیار نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمان بھی اگر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہوجائیں اور اپوزیشن اتحاد حکومت کے ساتھ بیٹھ جائے تو معاملات حل ہونے پر ملک میں سیاسی معاشی استحکام آسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اس کی بڑی خدمات ہیں، مسلم لیگ ن نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا، ن لیگ نے سیاست کرنی ہے اور سیاست کررہی ہے، اگر کسی کو نظر نہیں آرہی تو بالکل نظر آنی چاہئے،حکومتی معاملات پیچیدہ ہیں کہ اتنی محنت شہبازشریف نے پوری زندگی نہیں کی ہوگی جتنی اب کررہے ہیں، اس وجہ سے پارٹی کی سیاست میں کمی رہی ہے، میاں نوازشریف پارٹی صدارت سنبھالنے جارہے ہیں، اس سے ن لیگ کی سیاست میں تیزی آئے گی۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے رانا ثناء اللہ کی گرینڈ ڈائیلاگ کی پیشکش مسترد کردی، سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی رؤف حسن نے کہا کہ رانا ثناءاللہ اور شہباز شریف کے ذریعے پیغامات بھجوائے جارہے ہیں، ان دونوں سے یہ باتیں کون کرا رہا ہے؟ ان کے پاس تو دینے کو کچھ بھی نہیں ہے، بات چیت ان سے ہوگی جو اصل طاقت کا منبع ہیں، رانا ثناء اللہ اور شہباز ڈمی ہیں، کہتے ہیں وزیر اعظم سے مذاکرات کریں، ہم ایک ڈمی سے کیا بات کریں جس کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں، اس لیے بات چیت ہوگی تو ان کے ساتھ جن کے ہاتھ میں پاور ہے اور آخر کار پی ٹی آئی سے براہِ راست بات ہوگی۔