اسلام آباد (نیا محاز ۔ DW اردو۔ 09 مئی 2024ء) تلخ حقیقت یہ ہے کہ زمانے کی بے رخی کے باعث ٹرانسجینڈرز کی ایک الگ ہی زندگی ہے۔ ان کو ہر جگہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً تعلیم کا حصول پھر نوکریاں نہ ملنا، حقوق نہ ملنا، پے در پے ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ ان پر فقرے کسے جاتے ہیں۔ لوگ روڈ پر تالیاں بجا بجا کر ان کے ساتھ فحش گوئی کرتے ہیں۔
پبلک سیکٹرز میں انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ سفر پر مسافر سیٹ یا سواری ہی تبدیل کرلیتے ہیں۔ ایسے سنگین و غمگین حالات میں روٹی کی غرض سے ٹرانسجینڈر افراد جب سڑکوں پر میک اپ کیے دو وقت کی روٹی کمانے نکلتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی شادیوں اور دیگر خوشیوں میں ہاتھ پھیلائے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ چند ایسے افراد مفلسی کی خاطر خلاف فطرت کام بھی کرتے ہیں جو کہ ان کی زندگی کا سب سے تاریک پہلو ہے۔
بعض فرسٹریشن کے مارے لوگ راہ چلتی خاتون کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ایسے میں ٹرانسجینڈرز کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ انہیں روٹی کے حصول کی غرض سے کس قدر پشیماں کیا جاتا ہوگا۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے معاشی و سماجی حالات کس قدر مخدوش ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق کے لیے ذرا سی بھی سعی کرتے ہیں تو نتیجتاً انہیں اس پاداش میں ناحق جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
پھر جب ٹرانس جینڈرز قانون ہاتھ میں لیتے ہیں تو واویلا مچ جاتا ہے۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ معاشی طور پر ٹرانس جینڈر طبقہ کو اس جان لیوا مہنگائی میں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ اپنے اور بیگانوں کی بے وفائیاں سینوں میں بند کیے لوگوں میں مسکراہٹ بانٹتے ان افراد کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔
کتنا افسوسناک پہلو ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی کمیونٹی کے علاوہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا، مر جائیں تو ان کی لاش تک وصول کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہسپتال میں مخمصے کا یہ عالم ہوتا ہے کہ طبی عملہ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے سے قبل یہ طے نہیں کر پاتا کہ انہیں مردوں کی کیٹگری میں رکھا جائے یا خواتین کی!
ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے حقوق کے لیے مختلف صورتوں میں طبع آزمائی کی جاچکی ہے اور کی جارہی ہے مگر پھر بھی مثبت نتائج دکھائی نہیں دیتے۔
آج سے تقریباً 10 سال قبل ہی ان کے حقوق پر لکھنے والوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا جیسے انہوں نے ان کی حمایت میں قلم کو جنبش دے کر قلم کی حرمت کو پامال کیا ہو۔ یہ افراد معاشرے کا وہ پسا ہوا طبقہ ہیں جن کے مسائل پر بات بہت کم ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرے کی اکثریت اب بھی ان افراد کو اپنے مدمقابل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں حتیٰ کہ رحمت و شفت کا استعارہ یعنی والدین انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کردیتے ہیں۔
وراثتی لحاظ سے بھی یہ جائیداد کے ربانی حکم سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔
ٹرانسجینڈرز بھی ہمارے جیسی اچھی زندگی، تعلیم ، روزگار، سہولتیں اور شناخت چاہتے ہیں جو کہ ان کا حق ہے اور ہمارا فریضہ ہے کہ معاشرے کے مظلوم طبقہ کی ہم آواز بنیں۔
حالات اس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک انہیں کلی طور پر تسلیم نہیں کیا جاٸے گا۔ملک بھر میں ٹرانس جینڈرز کی تعداد تو کافی ہے لیکن حیف کہ جنسی تعصب کی بناء پر انہیں کم شمار کیا جاتا ہے۔
عالمی اداروں سے جب امداد لینی ہوتی ہے تو شاطرانہ انداز سے ان کی گنتی کو یکدم بڑھا دیا جاتا ہے جبکہ مردم شماری میں منظر نامے سے دفعتاً غاٸب کردیا جاتا ہے۔ تعداد کو قلیل اس لیے ظاہر کیا جاتا ہے کیونکہ کثیر تعداد ہونے پر انہیں تعلیم، صحت، روزگار، اسمبلی، ہر جگہ زیادہ کوٹہ دینا پڑے گا۔
ان افراد کو مرد یا عورت کی نظر سے نہیں بلکہ انسان کی نظر سے دیکھیں۔
یہ اس وقت تک شروع نہیں ہو گا جب تک نہ صرف میڈیا بلکہ منبر و مسجد جیسے پلیٹ فارمز سے بھی اس حوالے سے آگاہی اور شعور نہیں دیا جائے گا۔
ٹرانسجینڈر افراد کے والدین اور رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو قبول کریں۔ در در کی ٹھوکروں کی بجائے ان کی سرپرستی کریں اگر وہ انہیں نہیں اپنائیں گے تو معاشرہ انہیں قومی دھارے میں شامل نہیں کرے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔