0

’خیبرپختونخوا سے ڈی چوک کیلئے پی ٹی آئی کا ہجوم نکلا تو ابتدائی طور پر ہی سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے کیونکہ ۔ ۔ ۔‘ سینئر صحافی نے اندر کی بات بتادی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک کو کئی روز کیلئے لاک کیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنان کسی نہ کسی طرح وفاقی دارلحکومت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے متضاد دعوے سامنے آئے، اب سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ۔روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ’ پختونخوامیں لوگوں کا اکٹھ ہوا مارچ چلنا شروع ہوا تو اہل اقتدار کے فوراً کان کھڑے ہوگئے ،دو چیزیں انکی نظر میں بہت خطرناک تھیں ایک تو 35 ہزار افراد کا پرجوش ہجوم جس میں زیادہ تر نوجوان تھے اور دوسری طرف بشریٰ بی بی کی جلوس میں موجودگی، بشریٰ بی بی کا اہل اقتدار کے پاس نہ کنٹرول تھا اور نہ اس کاکوئی اندازہ تھا کہ وہ کیا کرڈالے گی اور اس کے فیصلے لڑائی کی طرف بڑھائیں گے یا پھر آخر میں صلح کا راستہ نکلے گا؟ریاست کے پاس ایسے جدید آلات آ گئے ہیں کہ وہ فضا سے یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہجوم کا سائز کتنا ہے یہ آلات بالکل صحیح تعداد سے آگاہ کرتے ہیں ،جب 35ہزار کے جلوس کی اطلاع ملی تو ابتدائی طور پر سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے جلوس والے حکومت اور مقتدرہ کو تگنی کا ناچ نچانا چاہتے تھے جبکہ مقتدرہ انہیں جال میں پھنسانا چاہتی تھی۔دونوں کے مقاصد واضح اور متضاد تھے۔

تحریک انصاف نے سفر شروع کیا تو جذبہ یہی تھا کہ ہر صورت ڈی چوک پہنچنا ہے، دھرنا دینا ہے اورخان کو رہا کروا کے لانا ہے۔پی ٹی آئی اپنی اسی منصوبہ بندی کے تحت رک رک کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئی۔بشریٰ بی بی کی جذباتی تقریروں نے مجمع کو بھڑکائے رکھا ،دوسری طرف اہل اختیار بھی جال تیار کئے بیٹھے تھے کہ جھانسی کی رانی کو جھانسہ کیسے دینا ہےچنانچہ تیاری کی گئی کہ انہیں بار بار روکا جائے تاکہ مظاہرین تھک جائیں حکمت عملی یہ تھی کہ مقابلہ نہیں کرنا، انہیں روکنا ہے ،اگر لڑائی کی نوبت آئے تو پیچھے ہٹنا ہے ،یوں جوش بھرے جلوس کو لڑتے بھڑتے ناکے پار کراتے اسلام آباد کے قریب آنے دیا گیا۔ یہاں تحریک انصاف اور بشریٰ بی بی نے ریاست کو ایک زبردست سرپرائز دیا ،ریاست کی تیاری یہ تھی کہ جلوس ایک دن بعد ڈی چوک پہنچے گا مگر مظاہرین نے شدید دبائو ڈالا اور حکومت کی توقعات کے برخلاف ایک دن پہلے ہی ڈی چوک پہنچ گیا اس حیران کن اور تیز ترین اقدام سے وقتی طور پر فیصلہ ساز پریشان ہو گئے اصل میں ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ مظاہرین کو تھکایا جائے اور دوسرا انہیں زیادہ سے زیادہ بھوکا رکھا جائے اسی لئے راستے میں موجود تمام کھانےپینے کی دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔

منصوبہ یہ تھا کہ ڈی چوک کے پھندے میں بھوکے اور تھکے ہوئے مظاہرین پہنچیں گے تو ان سے نمٹنا آسان ہو گا۔ راستے میں آپریشن ہوتا تو زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے جانی نقصان کا اندیشہ تھا ،اسلئے یہی سوچا گیا کہ ڈی چوک کا پھندا سب سےبہتر رہے گا۔ دوسری طرف اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی بشریٰ بی بی اور مظاہرین کے حوصلے بلند ہوگئے انہیں لگا کہ وہ فتح یاب ہو چکے ہیں ہرطرف سے بی بی کے لئے واہ واہ کا شور اٹھ رہا تھا، فتح کےپھریرےلہرا رہے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں