0

ٹیکس چوروں کے خلاف جنگ،ست بسم اللہ

وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے جب سے یہ اہم وزارت سنبھالی ہے، بیانات کی حد تک انہوں نے سابقہ وزراء کے خزانہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تاہم عملی اقدامات اور نتائج کے معاملے میں وہ ابھی تک اپنے پیشرو وزراء کی صف میں کھڑے ہیں،پاکستان میں ٹیکس کلچر پیدا کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔اِس میں کئی رکاوٹیں اور کئی مجبوریاں آڑے آتی ہیں، بڑے بڑے ارب پتی تاجر بھی چھوٹے چھوٹے تاجروں کی آڑ لے کر بچ جاتے ہیں،ہڑتالیں کرا دیتے ہیں یا مظاہروں کے ذریعے حکومت کو بے بس کر دیتے ہیں،سب سے بڑی رکاوٹ ایف بی آر بھی ہے، جس کا کرپٹ نظام ٹیکس چوروں کو تحفظ دیتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے اگرچہ وزیر خزانہ کی آواز میں آواز ملا کر کہا ہے کسی ٹیکس چور کو نہیں چھوڑیں گے اِس میں کوئی ملازم ملوث ہوا یا ٹیکس دہندہ سخت کارروائی ہو گی،لیکن صاحب ایسی مولا جٹ ٹائپ بڑھکیں ہمارے ٹیکس چوروں اور ایف بی آر کے افسروں نے بہت سن رکھی ہیں،جب نظام میں آپ نے کئی ایسے خلاء رکھ دیئے ہوں جو ٹیکس چوروں کو محکمے کے افسروں کی ملی بھگت سے راستے فراہم کرتے ہوں تو کسی کو کیا پڑی، وہ ٹیکس دے یا فائیلر بنے۔ اب اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے کہ بقول وزیر خزانہ مختلف کمپنیوں کی جانب سے 29ارب روپے کا سیلز ٹیکس چوری ہو رہا ہے۔ حیرت ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے ایف بی آر نے کوئی خود کار نظام وضع نہیں کیا، ہونا تو یہ چاہئے اِدھر سیلز ٹیکس کٹے اور اُدھر قومی خزانے میں پہنچ جائے۔میں جب بھی پی ٹی سی ایل کا بل آن لائن ادا کرتا ہوں تو دو سیکنڈ بعد مجھے یہ پیغام مل جاتا ہے بل ادا ہو گیا ہے،اس نظام کو ہر سطح پر نافذ ہونا چاہئے۔اس وقت حالت یہ ہے کہ ریسٹورنٹ، بڑے شاپنگ مالز، ہوٹلز وغیرہ آپ کو بل سیلز ٹیکس کے ساتھ دیتے ہیں،مگر اکثر بلوں پر سرکاری خزانے کا نمبر ہی درج نہیں ہوتا،جس میں سیلز ٹیکس جانا چاہئے۔ یوں اس مد میں روزانہ عوام کی جیبوں سے کروڑوں روپیہ نکل کر ان مالکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔میں جب بھی کسی ریسٹورنٹ میں جاتا ہوں تو اُس کا سرکاری سیلز ٹیکس نمبر ضرور دیکھتا ہوں۔پکی رسید پر اُس کا اندراج دیکھ کر بل ادا کرتا ہوں،مگر ایسا کتنے لوگ کرتے ہیں۔یہ عام شکایت ہے ایف بی آر کی طرف سے فیکٹریوں، ہوٹلوں، ریستورانوں اور شاپنگ مالز میں جو عملہ تعینات کیا جاتا ہے وہ اکثر موقع پر موجود نہیں ہوتا اور اُس کے ساتھ مالکان کے معاملات طے ہو جاتے ہیں، کئی بااثر افراد سادہ بل کا تقاضا کرتے ہیں،جو انہیں دے دیا جاتا ہے، حالانکہ کسی کو سیلز ٹیکس چھوڑنے کا اختیار کسی کے پاس ہے ہی نہیں۔چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ملک میں 30لاکھ افراد ایسے ہیں، جن کی ٹیکس دینے کی ذمہ داری بنتی ہے مگر وہ ٹیکس نہیں دے رہے اُن کا تمام ڈیٹا ایف بی آر کے پاس موجود ہے۔ 14اکتوبر کو نان فائیلر کی کیٹگری ختم کی جا رہی ہے اس کے کیا نتائج نکلیں گے اس کا فیصلہ تو آنے والے دِنوں میں ہو گا۔ تاہم چیئرمین ایف بی آر کا صرف 30لاکھ افراد کے بارے میں کہنا کہ اُن پر ٹیکس لگنا چاہئے ایک تجاہل ِ عارفانہ ہے اگر ملک کی پوش کالونیوں میں رہنے والوں کا ہی سروے کر لیا جائے تو تعداد اس سے کئی گنا زیادہ نکلے۔ آپ لاہور اور کراچی کی بڑی مارکیٹوں میں چلے جائیں، تھوک کا کاروبار کرنے والوں کی ایک دن کی سیلز کروڑوں سے تجاوز کر جاتی ہے،مگر اُن میں سے اکثر ٹیکس کے نزدیک نہیں جاتے،اگر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب واقعی ٹیکس چوروں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پھر کشتیاں جلا کر میدان میں آئیں،کسی سیاسی دباؤ کو قبول نہ کریں اور کسی احتجاج کو خاطر میں نہ لائیں، صرف یہی ایک راستہ ہے،جو ہمیں آئی ایم ایف کے جبر اور قرضوں سے نجات کی طرف لے جا سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں ہمارے جیسا ٹیکس نظام ہو،بلواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کا بھرکس نکالنے کی جو روش ہمارے حکمرانوں نے اختیار کر رکھی ہے وہ ایک ایسا ظلم ہے، جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔یہ تو ایک غریب مزدور اور ارب پتی سیٹھ کو ایک قطار میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے، جو قومیں خود انحصاری کی منزل سے ہمکنار ہوئی ہیں وہاں بلاواسطہ ٹیکسوں کا نظام رائج ہے، جو جتنا زیادہ کماتا ہے وہ اتنا ہی ٹیکس دیتا ہے۔جنرل سیلز ٹیکس تو ایک ایسا کلہاڑا ہے جو ہر سامنے آنے والے پر برس جاتا ہے،حکومت کی سب سے زیادہ آمدنی درآمدات سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک سیلز ٹیکس اور دوسری تنخواہ دار طبقے سے،باقی درمیان میں کھربوں روپے کی تجارت کرنے والے،شوگر ملوں، ٹیکسٹائل فیکٹریوں اور دیگر شعبوں سے اربوں روپے کمانے والے براہِ راست ٹیکسوں کی طرف نہیں آنے دیتے۔مجھے ایک ارب پتی کاروباری شخص سے ملنے کا اتفاق ہوا۔باتوں میں اُس نے بتایا اِس سال اُس نے سات لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا ہے، میں نے حیرانی سے پوچھا سات لاکھ،یہاں تو بیسویں گریڈ کا ایک پروفیسر اتنا ٹیکس دے رہا ہے۔اُس نے کہا میں اپنی فیکٹری سے جو تنخواہ لیتا ہوں اُس پر ہی ٹیکس دوں گا ناں۔ ایسی وارداتیں ہر بڑے کاروباری لوگوں کے ہاں نظر آتی ہیں،اپنی قابل ٹیکس آمدنی معمولی سی شو کر کے ٹیکس دینے والوں میں انگلی کو لہو لگا کے شیر بن جاتے ہیں،اس قسم کے حربوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر کو اگر جدید تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق نہ ڈھالا گیا تو یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اور آمدنی کا بڑا ذریعہ صرف سیلز ٹیکس ہی ہو گا،جو مہنگائی کا سب سے بڑا سبب ہے اور جس کی وجہ سے عام آدمی کو ریلیف ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔سیاسی مصلحتیں رہیں اپنی جگہ، اس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔قرضوں کا انبار دو گنا سے چار گنا ہو چکا ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے مگر درحقیقت یہ کوئی خوشی کی بات نہیں، ایک بار تو اس غلامی کے طوق کو ہمیں گلے سے اتارنا ہو گا۔اس کا واحد حل یہی ہے ہم اپنا ٹیکس نیٹ بڑھائیں۔ سیلز ٹیکس کم ہو گا تو مہنگائی بھی کم ہو گی۔جب تک قومی آمدنی میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح نہیں بڑھتی معیشت میں بہتری نا ممکن ہے۔اس طرف ہماری حکومتوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔اس کی وجہ سیاسی مصلحتیں اور کمزوریاں رہی ہیں، پھر خود حکمران طبقوں میں یہ رجحان رہا ہے کہ وہ اپنے صنعتی یونٹوں سے بھاری منافع تو کمائیں مگر قومی خزانے میں اپنا حصہ نہ ڈالیں۔اس بار بلاشبہ غیر روایتی اقدامات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔اگر یہی عزم اور سختی برقرار رہی اور ایف بی آر میں موجود کرپشن پر بھی قابو پا لیا گیا تو ممکن ہے وہ انقلاب آ جائے جو کئی دہائیوں سے دکھایا تو ہمیشہ گیا ہے،مگر اُسے عملی تعبیر تک پہنچنے میں روڑے بھی اٹکائے جاتے رہے ہیں۔کاش اس بار یہ رکاوٹیں کسی معجزاتی طاقت کے ذریعے پاش پاش ہو جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں