0

جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق

یہ ایک ایسی ٹریجڈی ہے، جس کا بھیانک نتیجہ اس کے بعد سے افغانستان اور پاکستان ، بلکہ یہ پورا خطہ بھگت رہے ہیں اور معلوم نہیں کب تک بھگتتے رہیں گے
0 صدی کے آخر میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اب تاریخ کا حصہ ہے۔ 80 ء کی اس دہائی میں پاکستان نے افغان قوم کے شانہ بہ شانہ سوویت یونین کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑی، جو خفیہ جنگوں کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی منفرد جنگ تھی۔ یہ خفیہ جنگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے جنرل اختر عبدالرحمن شہید کی کمان اور ان کے افغان وژن کے تحت لڑی اور جیتی۔
لیکن بدقسمتی سے اس کے آخری اور فیصلہ کن موڑ پر مذاکرات کی بساط بچھی تو ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ابن الوقت سیاست دانوں نے اپنے ادنیٰ مفادات کی خاطرپاکستان کو اس عسکری فتح کے سیاسی ثمرات سے محروم کر دیا۔یہ ایک ایسی ٹریجڈی ہے، جس کا بھیانک نتیجہ اس کے بعد سے افغانستان اور پاکستان ، بلکہ یہ پورا خطہ بھگت رہے ہیں اور معلوم نہیں کب تک بھگتتے رہیں گے۔

یہ ٹریجڈی اس وقت شروع ہوتی ہے،جب 1985ء کے اوائل ہی میں واشنگٹن انتظامیہ نے افغانستان میں جنگ کے بعد کے سیاسی نقشہ پر کام شروع کر دیا تھا اور اس سلسلہ میں امریکی سیکرٹری خارجہ نے کریملن، کابل اور اسلام آباد سے باضابطہ رابطوں کا آغاز کر دیا تھا۔ جنوب مشرقی ایشیا امور کے امریکی ماہر Seling S.Harrison اپنے آرٹیکل Gen Zia , Gen Akhtar and Geneva Agreement میں اس کی کچھ تفصیلات اس طرح منکشف کرتے ہیں؛” ابتدائی طور پر واشنگٹن انتظامیہ کی تجویز یہ تھی کہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں ایک ایسی وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کی جائے، جس میں جہادی تنظیموں اور پی ڈی پی اے کے علاوہ جلاوطن سیاستدان بھی شامل ہوں۔
سابق افغان حکمران ظاہر شاہ کا نام پہلی بار اسی مرحلہ پر سامنے آیا تھا، جو ان دنوں روم میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ سوویت یونین نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا۔ وہ بضد تھا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد بھی کابل میں اسی کی حامی حکومت رہے گی اور صدارت کے علاوہ فوج کی کمان بھی اسی کے پاس ہو گی۔ پاکستان میں سیاسی طور پر اس مسئلہ پر کوئی اتفاق راے نہیں ہو رہا تھا۔
تاہم وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں امریکہ کی مجوزہ وسیع البنیاد حکومت کی طرف مائل تھے ، بلکہ اس پر بھی قائل ہو چکے تھے کہ اس میں ظاہر شاہ کا کردار سودمند ہو گا۔ لیکن جنرل اختر عبدالرحمن کو صاحب زادہ یعقوب علی خان کی راے سے قطعاً اتفاق نہ تھا۔ ان کی راے یہ تھی کہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد ایک ایسی عبوری حکومت پاکستان کے مفاد میں ہو گی، جس میں سوویت یونین کے خلاف جنگ آزما افغان تنظیموں کی نمایندگی دوسرے گروپوں سے زیادہ اور فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہو۔
اس صورت میں نہ صرف یہ کہ نئی افغان حکومت مستحکم ہو گی ، بلکہ اس خطہ میں عالمی امن کی ضامن بھی ہو گی۔
Seling S. Harrison آگے چل کر لکھتے ہیں،” جنرل ضیاالحق نے جنرل اختر عبدالرحمن کی راے کے حق میں فیصلہ دیا،جس کے بعد یہ جنرل ضیاالحق اور حکومت پاکستان کی راے بھی ہو گئی۔ اسی عرصہ میں افغانستان کے محاذ جنگ سے کچھ ایسی اطلاعات آئیں، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ رہا کہ سوویت یونین کی حامی افغان حکومت زیادہ عرصہ تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔
اس سے جنرل اختر عبدالرحمن کی راے کو مزید تقویت پہنچی اور جنرل ضیاالحق پہلے سے زیادہ اس راے پر مستحکم ہو گئے ۔ “
لیکن اسلام آباد میں وزیر اعظم محمد خان جونیجونے، جن پر ہر معاملہ میں جنرل ضیاالحق سے مختلف ہونے کا خبط سوار رہتا تھا، افغان پالیسی کو سبوتاژ کرنا شروع کر دیا۔ جنرل اختر عبدالرحمن سے ان کی مخاصمت کی وجہ صرف یہ تھی کہ افغان مسئلہ میں ، جنرل ضیاء الحق، جنرل اختر عبدالرحمن کی راے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
چنانچہ جونیجو نے جنرل ضیاالحق کو اعتماد میں لیے بغیر صاحب زادہ یعقوب علی خان کو فارغ کر دیا اور وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے ساتھ ہی سیکرٹری خارجہ عبدالستار کو ہدایات جاری کیں کہ آیندہ سے افغان مسئلہ پر کوئی فائل براہ راست صدر ضیاالحق کو نہیں بھیجی جاے گی ۔ دفتر خارجہ اس طرح کی ساری فائلیں وزیراعظم کو بھیجے گا، اور وزیراعظم جو فائل مناسب سمجھیں گے، صرف وہی آگے صدر کو بھجوائیں گے۔
یہ ایک طرح سے امریکہ کے سامنے معاہدہ جینیوا پر جنرل ضیاء اور جنرل اختر کی سوچ سے خود کو ”بری الذمہ“ ثابت کرنے اعلان تھا۔ تاہم جنرل اختر عبدالرحمن ، جنرل ضیاالحق کو افغانستان کے تمام تر حالات سے باخبر رکھے ہوئے تھے۔ افغان مسئلہ پر جنرل ضیاالحق کو مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے کے، بلکہ دیوار سے لگانے کی غرض سے ہی وزیر اعظم جونیجونے گول میز کانفرنس بلائی ، جس میں بے نظیر بھٹو کو خاص طور پر مدعو کیا ، حالانکہ بے نظیر بھٹو نے 1985 ء کے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا تھا، جس کے بطن سے جونیجو حکومت نے جنم لیا تھا۔

یہ امریکی انتظامیہ کو واضح اشارہ تھا کہ جنرل ضیا اور جنرل اختر کی راے کے برعکس وزیراعظم جونیجو افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام کا مطالبہ منوائے بغیر، جو کہ امریکہ کی خواہش تھی ، جنیوا معاہدہ پر دستخظ کرنے پر تیار ہیں۔ جنرل ضیاالحق نے اصلاح احوال کی آخری کوشش کے طور پر ایک میٹنگ طلب کی، جس میں وزیراعظم جونیجو ، وزیر مملکت براے امورخارجہ زین نورانی اور کچھ دوسرے وزیر بھی موجود تھے۔
میٹنگ میں انھوں نے غضب ناک لہجہ میں زین نورانی کی طرف انگلی اٹھا کر کہا، اگر آپ کی حکومت نے افغانستان میں مستحکم عبوری حکومت کا مطالبہ منوائے بغیر عجلت میں جنیوا معاہدہ پر دستخط کر دیے تو لوگ آپ کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ تاہم، یہ ساری کوششیں اکارت گئیں اور جونیجو حکومت نے معاہدہ جنیوا پر دستخط کر دیے ،جو درحقیقت افغانستان میں خانہ جنگی کا پروانہ تھا۔
معاہدہ جنیوا کے تناظر ہی میں وزیر اعظم جونیجو اور ان کے حامیوں نے جنرل اختر کو اوجڑی کیمپ سانحہ کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی، حالانکہ اس وقت جنرل اختر عبدالرحمن آئی ایس آئی کے سربراہ بھی نہیں تھے، اور ایک سال پہلے ترقی پا کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بن چکے تھے ،ا ور اب تو Bruce Riedel بھی اپنی تحقیقی تصنیفWhat We Won, America’s Secret War in Afghanistan 1979 – 89 میں لکھ چکے ہیں کہ2012ء میں ان کو خود” را“ کے ۲ افسروں نے بتایا کہ اوجڑی کیمپ کو” را“نے تباہ کیا تھا، تاکہ آئی ایس آئی کو جہاد کشمیر اور تحریک خالصتان کی پشت پناہی کی سزا دی جائے۔
ان حالات و واقعات کی روشنی میں، جو معاہدہ جینیوا کے بطن سے نمودار ہوئے، آج تاریخ کے کسی طالب علم کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ حقیقتاً معاہدہ جنیوا پر اختلافات اور اس پر جونیجو حکومت کی پراسرار جلدبازی ہی آخر کار 29 مئی 1988ء کو اس کا خاتمہ کا سبب بنی تھی ۔
آج امریکہ اور مغرب کے سیاسی دانشور اور عسکری ماہرین جنرل اختر عبدالرحمن کے افغان وژن کا اعتراف کرتے ہیں، بلکہ اس طرح کے سوالات بھی اٹھائے جانے لگے ہیں کہ اگر جنرل ضیا اور جنرل اختر زندہ رہتے تو آج اس خطہ کی تاریخ کتنی مختلف ہو سکتی تھی۔
What We Won میں Bruce Riedel لکھتے ہیں، ” آج کچھ لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر جنرل ضیاء او رجنرل اختر زندہ رہتے تو 1989ء میں بے نظیر بھٹو کے برعکس کابل پر قبضہ کرنے کے لیے مجاہدین کی صفوں میں ہم آہنگی اور ڈسپلن پیدا کرتے، جس کی سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد مجاہدین کو اشد ضرورت تھی ۔“ آخر میں Bruce Riedel ا س موضوع پر بحث کو اس طرح سمیٹتے ہیں،” جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی پراسرار موت ( 17 اگست 1988ء ) نے نہ صرف پاکستان کو افغان جنگ میں فیصلہ کن فتح سے محروم کر دیا ، جس کی انھوں نے شدید خواہش کی تھی ، بلکہ اس خطہ کو مستقل طور پر عدم استحکام سے دوچار کر دیاہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں