راضیہ سید
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی بار بار کروٹیں بدل بدل کر اس کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا
اس نے ساتھ والی چارپائی پر لیٹی اپنی بیوہ ماں پر نگاہ کی ۔دن بھر کی تھکی ہوئی محنت کش عورت خراٹے لے رہی تھی ۔وہ سوچتی تھی کہ پتہ نہیں ماں کو کیسے اتنی اچھی نیند آ جاتی ہے اور وہ بھی اتنی گرمی میں ایک دن اس نے یہ سوال اپنی ماں سے کر بھی دیا تھا تو وہ ہنس کر یہی بولی تھی کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے ۔
اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی کتنے آرام سے سو جاتے تھے حالانکہ گھر کتنا چھوٹا سا تھا دو ہی پنکھے تھے اور وہ بھی گھرر گھرر کر چلتے رہتے تھے لیکن وہ تو کبھی شکایت تک نہ کرتے تھے اماں کہتی تھی کہ ایک اس کا مزاج ہی شاہانہ تھا۔
اس کی ماں گھر میں ہی سلائی کٹائی کا کام کرتی تھی محلے داروں کے کپڑے کم داموں میں سی دیا کرتی تھی عام درزیوں کی طرح کوئی نخرے بھی نہیں کرتی تھی بلکہ طرح طرح کے ڈیزائن بنانا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔۔۔قدرت نے اسے بڑے ہنر سے نوازا تھا جو چیز ایک دفعہ دیکھ لیتی اسے ازبر ہو جایا کرتی تھی ۔۔۔
سو سب محلے والے اس کی ماں سلمی بیگم سے خوش تھے گویا اپنے کپڑے اسے دے کر بے فکرے سے ہو جاتے تھے ، اس نے صرف بی اے کیا تھا اور گھر بیٹھ گئی تھی۔۔وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اس سے چھوٹے ابھی سب پڑھ رہے تھے ۔جب وہ میٹرک میں تھی تو اس کے ابا کی ایک ٹریفک حادثے میں وفات ہو گئی تھی ۔
وہ سب اور ان کی ماں اس بھری دنیا میں بالکل تن تنہا رہ گئے تھے اس کے والد کی وفات ایک سانحہ ہی تو تھی لیکن اس کی ماں نے امید کا دامن ہمیشہ ہی تھامے رکھا تھا ہمیشہ ان بچوں کو حوصلہ دیا تھا سچ کہتے ہیں ماں کی ہمت پہاڑ جیسی ہوتی ہے اس کی محبت بالکل گھنے درختوں کی چھائوں جیسی ہوتی ہے ۔۔
آج کی صبح کا آغاز بھی معمول کے مطابق ہوا تھا اس نے اٹھتے ہی ٹھنڈے پانی کے چھپکے مار کر گویا خود کو ٹھنڈک پہنچائی تھی گرمی بھی تو بہت تھی ۔۔۔
اس نے ناشتہ تیار کیا اور اماں کے لئے بھی چائے لے آئی ، چھوٹے بہن بھائی سب سکول کالج جا چکے تھے ۔چائے کی پیالی اماں کے پاس رکھی اور خود بھی چھوٹے چھوٹے سپ لینے لگی ۔۔
” کیا ہوا آج تمھیں رات ٹھیک سے نیند نہیں آئی کیا ؟ جب بھی تمھاری طرف دھیان گیا تم کروٹیں ہی بدل رہی تھی ۔”
سلمی نے بیٹی لاریب کو پیار بھری نظروں سے دیکھا ۔۔۔
” ہاں اماں بس کچھ ایسا ہی تھا ایک تو گرمی بھی تھی دوسرا ذہن میں عجیب عجیب سی سوچیں؛ بارش بھی کافی دن سے نہیں ہوئی کہ موسم ہی خوشگوار ہو جاتا۔”
” کیسی سوچیں بیٹا ؟ میرے ہوتے ہوئے بھی اگر تم یونہی سوچتی رہو گی تو کیا بنے گا ؟ حالات تو جیسے تیسے ہیں گذر ہی رہے ہیں ، تم فکر مند نہ ہوا کرو ۔”
” اماں فکر کی تو بات ہے آپ کی آمدنی بھی محدود ہوتی ہے اور ابا کی پنشن میں بھی کب تک گذارا کریں گے سوچ رہی ہوں کہ میں کہیں نوکری تلاش کروں تاکہ آپ کو کچھ سہولت ہو سکے
کہہ تو ٹھیک رہی ہو لیکن نوکری بھی اتنی آسانی سے کہاں ملے گی آج کل قابلیت کی کوئی وقعت نہیں صرف سفارش کو ہی سلام ہے ۔”
” اماں یہ تو ہے لیکن کوشش کرنے میں تو کوئی ہرج نہیں زندگی یونہی تو نہیں گذاری جا سکتی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو بیٹھا نہیں جا سکتا کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا ۔” لاریب نے پراٹھا ختم کر لیا تھا
اور جلدی جلدی چائے کے گھونٹ حلق میں اتارنے لگی ۔چیزیں سمیٹتے ہوئے بھی اس کا ذہن کسی نہ کسی کام کی طرف ہی لگا رہا کیا وہ کسی سکول میں نوکری کر لے لیکن نہیں چند ہزار کی نوکری سے وہ اپنی حالت کیسے سدھار سکے گی ہاں اگر وہ گھر پر ٹیوشن شروع کر لے تو شاید کچھ بہتری ہو جائے لیکن محلے بھی تو متوسط طبقے کے لوگوں کا ہے وہ اتنی فیس کیسے دے سکیں گے اور خواری الگ سے ہو گی ۔
سو اس آئیڈیا پر بھی اس نے کوئی غور نہ کیا ۔کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے کہ اپنی حالت سدھارنے کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اور کر بھی نہیں سکتا ۔۔مایوسی اور پریشانی اسے گھیر لیتی ہیں اور وہ خود کو بہت تنہا محسوس کرتا ہے ۔جاری ہے۔اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
0