ساہیوال (نیا محاذ) چیچہ وطنی کے نواحی گاؤں 110/7R سے 6 سالہ ادیبہ مبارک انصاری کو لاپتہ ہوئے 3 سال ہو گئے ہیں۔ بظاہر یہ کیس چیچہ وطنی شہر کی مقامی پولیس نے بند کر دیا ہے۔ تاہم ادیبہ کے والدین کو اب بھی یقین ہے کہ ان کی لاپتہ بیٹی واپس مل جائے گی۔ ادیبہ مبارک کیس میں کیا ہوا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مقامی نیوز ویب سائٹ ساہیوال ٹوڈے کے مطابق 22 نومبر 2021 کی شام کو انڈے بیچنے والے کی آواز سن کر سرخ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس ادیبہ مبارک انڈے خریدنے کے لیے گھر سے نکلی، لیکن وہ واپس نہیں آئی۔ کچھ دیر بعد گاؤں میں مسجد میں اعلانات کے ذریعے تلاش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔چیچہ وطنی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور ڈی پی او ساہیوال کی ہدایت پر پولیس نے 23 نومبر کو مقدمہ درج کرکے لاپتہ لڑکی کی تلاش کے لیے 4 ٹیمیں تشکیل دیں جو ناکام رہیں۔
ساہیوال ضلع کی پہلی رجسٹرڈ سیاسی جماعت تحریک احساس پاکستان نے ادیبہ مبارک کی عدم بازیابی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ احتجاجی ریلی شہر کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی بابا فرید گیٹ پہنچی جہاں ادیبہ مبارک کے والد نے بھی جلسہ عام میں شرکت کی۔پولیس لڑکی کو تو بازیاب تو نہ کرسکی لیکن تحریک احساس کے کارکنوں کے خلاف ساؤنڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کرکے احتجاج کی آواز کو دبانے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
3 دسمبر 2021 کو ایس پی انویسٹی گیشن ساہیوال شاہدہ نورین ادیبہ مبارک کے گھر پہنچیں۔ معصوم بچی کے والدین کو تسلی دینے کے بعد انہوں نے کہا کہ پولیس معصوم لاپتہ بچی کی بازیابی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اس موقع پر ڈی ایس پی رانا اکمل رسول نادر، ایس ایچ او تھانہ صدر جہانزیب وٹو اور علاقہ معززین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
10 دسمبر کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ساہیوال صادق بلوچ ادیبہ مبارک کے گھر پہنچے اور ان کے والدین سے ملاقات کی۔ “ڈی پی او ساہیوال نے لاپتہ لڑکی کے والد مبارک علی کو یقین دلایا کہ وہ اس تکلیف کو محسوس کر سکتے ہیں جس سے خاندان گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس لاپتہ لڑکی کی بازیابی کے لیے مختلف ٹیموں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اور روزانہ کی بنیاد پر ٹیموں کی نگرانی کر رہے ہیں اور ان کی پیش رفت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انشاء اللہ ادیبہ کی جلد بازیابی کو یقینی بنا کر مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی تاہم یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوسکا۔
11 دسمبر 2021 کو ادیبہ مبارک کے والد مبارک علی نے آر پی او ساہیوال کی کھلی کچہری میں اپنی بیٹی کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ آر پی او ساہیوال نے لڑکی کو جلد تلاش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔21 دسمبر 2021 کو چیئرمین روشنی ہیلپ لائن کراچی محمد علی اور زینب انصاری (قصور) کے والد محمد امین انصاری گاؤں 110 سیون آر میں لاپتہ ادیبہ مبارک کے گھر گئے اور معصوم بچی کے والدین سے ملاقات کی اور انہیں تسلی دی۔
چیئرمین روشنی ہیلپ لائن کراچی اور زینب شہید کے والد حاجی محمد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ لاپتہ بچوں کی تلاش کے لیے کام کرتے ہیں، اور اہل خانہ کی مدد کے لیے کراچی سے آئے ہیں۔
محمد امین انصاری کاکہناتھاکہ’’ہم نے دیکھا ہے کہ ادیبہ مبارک کے والدین کی حالت بہت خراب ہے۔ ادیبہ مبارک کا کیس چیچہ وطنی پولیس کے لیے چیلنج ہے۔ اگر کسی سیاستدان، امیر آدمی یا حکمران کی بیٹی لاپتہ ہو جائے اس کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ہمیں ادیبہ مبارک کو اپنی بیٹی سمجھنا چاہیے۔ ادیبہ ہماری بیٹی ہے، پوری قوم کی بیٹی ہے۔‘‘
یکم جنوری 2022 کو مقامی صحافیوں نے ڈی پی او ساہیوال سے لڑکی کی بازیابی کے بارے میں دریافت کیا جس پر ڈی پی او ساہیوال نے کہا کہ یہ ایک بلائنڈ کیس ہے۔28 جنوری 2022 کو تحریک احساس پاکستان کی جانب سے ادیبہ مبارک کی بازیابی کے لیے ڈی پی او آفس ساہیوال میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ اس موقع پر راؤ زبیر نے کہا کہ جب بھی ہم احتجاج کا اعلان کرتے ہیں تو پولیس گاؤں کے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور گاؤں کے لوگ معصوم بچی کے والدین کو دھمکاتے ہیں۔
18 مارچ 2022 کو تحریک احساس پاکستان نے لاپتہ بچی ادیبہ مبارک کی بازیابی کے لیے آر پی او ساہیوال آفس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ادیبہ مبارک کے والد نے بھی شرکت کی۔ چیئرمین تحریک احساس پاکستان محمد زبیر اسلم ایڈووکیٹ نے آر پی او آفس ساہیوال کے باہر دھرنے میں عوام کا کیس صاف اور دو ٹوک الفاظ میں افسران کے سامنے رکھا۔
چیچہ وطنی کے منتخب عوامی نمائندے اور سیاستدان اس کیس میں لاتعلق نظر آئے. کسی بھی مقامی ایم این اے، ایم پی اے یا کونسلر نے متاثرہ خاندان کے سر پر دست شفقت نہیں رکھا. یاد دہانی کے باوجود کسی بھی سیاسی رہنما نے ادیبہ مبارک کے والدین سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی پولیس کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی تلقین کی. چیچہ وطنی کے عوام اپنی پولیس سے کسی معجزے کی امید نہیں رکھتے تاہم وہ یہ سوال پوچھنے میں یقیناً حق بجانب ہیں کہ اتنے اہم کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟ ٹیکنالوجی کیوں استعمال نہیں ہو رہی؟ اس کیس کی تفتیش ایک اے ایس آئی لیول کے افسر کے حوالے کیوں کر رکھی ہے جس نے کیس کی فائل بند کر دی ہے؟