0

چترال سے اسلام آباد تک، خوابوں کا خون: ثنا یوسف قتل کیس نے سماج اور سیکیورٹی نظام کی قلعی کھول دی | نیا محاذ

نیا محاذ(ویب ڈیسک)
چترال کی برف زار وادیوں سے اٹھ کر اپنی زندگی کے خواب لیے اسلام آباد کی پرکشش روشنیوں میں قدم رکھنے والی 17 سالہ ثنا یوسف کو نہ زندگی نے مہلت دی، نہ ریاستی نظام نے تحفظ۔ ایک ہنستی مسکراتی، امنگوں سے بھرپور نوجوان لڑکی محض اس لیے قتل کر دی گئی کہ ہم ایک بیمار، بے حس، اور بے ترتیب سماج میں سانس لے رہے ہیں۔
ثنا یوسف، جو سوشل میڈیا پر اپنی معصوم اداوں، خوابوں اور امنگوں سے پہچانی جاتی تھی، 2 جون کی شام سیکٹر G-13 میں ایک درندہ صفت شخص کی گولیوں کا نشانہ بن گئی۔ یہ وہی اسلام آباد ہے جسے ’محفوظ ترین‘ اور ’پرامن ترین‘ کہا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر وفاقی دارالحکومت کی بستیوں میں ایک 17 سالہ بچی محفوظ نہیں، تو باقی ملک کا عالم کیا ہوگا؟
وہ آئی تھی جینے، سیکھنے، محبت بانٹنے اور زندگی کو خوشی سے گلے لگانے کے لیے۔ مگر جس سماج نے اسے خوش آمدید کہنا تھا، اسی نے اسے دفنانے کی تیاری کی۔ وہ جو شوخ و چنچل تھی، جو “مجھے جینا ہے، بہت جینا ہے” کی امیدیں سمیٹے چلی آئی تھی، زندگی کی بجائے موت کا تحفہ لے گئی۔
قاتل گرفتار ہوا، پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار ہوئی، سوشل میڈیا پر چند روز کے لیے ہیش ٹیگ بنے، مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ سلسلہ کب رکے گا؟ کیا “گھر پر آنے والے مہمان” کو جانچنے، پرکھنے یا روکنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں؟ یا اب صرف بچیاں ہی اپنی حفاظت کی خود ذمہ دار ہیں کیونکہ معاشرہ تو صرف سرسری افسوس پر قناعت کرتا ہے۔
اسلام آباد جیسے شہر میں ایک لڑکی کو اس کے گھر میں آکر دن دیہاڑے قتل کر دینا، ریاستی سیکیورٹی کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارا قانون صرف تب حرکت میں آتا ہے جب لاش زمین پر گرتی ہے، ورنہ سسٹم کو نیند آتی ہے، اور سماج کو تماشا چاہیے۔
سوال یہ نہیں کہ ثنا یوسف کیوں ماری گئی، سوال یہ ہے کہ ہم سب خاموش کیوں رہے؟
کیا یہ المیہ نہیں کہ ہم ایک ایسے ذہنی، سماجی اور اخلاقی دیوالیہ پن میں جی رہے ہیں جہاں بیٹیوں کے خواب، آرزوئیں اور زندگیاں سب ’نام نہاد غیرت‘ یا بیمار ذہنوں کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں