0

سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلوں پر اہم آئینی سماعت، عدلیہ کی منظوری کے چار مراحل لازم قرار

اسلام آباد (نیا محاذ)
سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلوں سے متعلق اہم آئینی مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی جج کے تبادلے کے لیے چار عدالتی مراحل پر منظوری لینا لازمی ہے۔ سماعت کے دوران عدلیہ کی خودمختاری، سنیارٹی، اور آئینی شقوں سے متعلق اہم سوالات سامنے آئے۔
مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے کی جس کی سربراہی جسٹس محمد علی مظہر کر رہے تھے۔ کیس میں وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا، اور اس کے تحت اسلام آباد میں ججز کا تبادلہ آئینی طور پر ممکن نہیں۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اگر کسی جج کا تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا اور واپسی پر دوبارہ حلف کی ضرورت نہیں ہوگی۔
عدالتی منظوری کے چار مراحل
جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جج کے تبادلے کے لیے چار مراحل کی منظوری لازمی ہے:
متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس
جس ہائیکورٹ میں تبادلہ ہونا ہے وہاں کے چیف جسٹس
خود وہ جج جس کا تبادلہ کیا جا رہا ہو
چیف جسٹس آف پاکستان
ان میں سے اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے اختیار میں ہوتا تو بات مختلف ہوتی، لیکن یہاں عدلیہ کے چار مختلف فورمز کی منظوری شرط ہے۔
سنیارٹی پر تحفظات
جسٹس شکیل احمد نے رائے دی کہ اگر ججز کی ایک قومی سنیارٹی لسٹ مرتب کی جائے تو کئی تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔ فیصل صدیقی نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سنیارٹی دہائیوں میں بنتی ہے اور اگر ایگزیکٹو راتوں رات اس میں ردوبدل کرے تو یہ عدالتی نظام پر کاری ضرب ہو گی۔
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ قانون سازی میں عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا اور سنیارٹی کے نازک مسئلے پر بدنیتی سے کام لیا گیا۔
سماعت ملتوی
عدالت نے فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اگلی سماعت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔
رپورٹ: نیا محاذ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں