0

“کیا شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟” جسٹس جمال مندوخیل کا حامد خان سے استفسار

اسلام آباد (نیا محاذ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں شہریوں کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا، “آپ بتائیں، کیا شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟”

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق، کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جاری ہے، جہاں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحریری معروضات عدالت میں پیش کر دیں۔ معروضات میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات نہیں چلنے چاہئیں۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں متعارف کرایا گیا، جبکہ اس سے قبل پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں آیا، جس میں پہلی بار بنیادی حقوق شامل کیے گئے۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو روک کر دوٹوک انداز میں سوال کیا، “ہم پرانی کہانیوں میں نہیں جائیں گے، سیدھا بتائیں، شہریوں کا ملٹری ٹرائل ممکن ہے یا نہیں؟”۔

یہ معاملہ آئینی اور قانونی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اور عدالت کے فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں