دسمبر ٹھہر جاتا ہے
کوئی یادوں کی کھڑکی ہے
کھلی رہتی ہے شب بھر
تمھاری یاد کی حدت کا الاؤ
ہمیں گھیرے میں ایسے لیتا ہے
دسمبر کی یہ یخ بستہ ہوائیں بھی
الاؤ تاپ کر چپ چاپ بیٹھ جاتی ہیں
ہمارے گھر کی ویرانی صدائیں دینے لگتی ہے
ٹھٹھرتے ہاتھ بھولے سے اگر خود کو ہی چھو لیں تو
جھلس جائیں
کہیں پر بھی نہیں ہو تم
مگر یادوں کی پرچھائیاں
دھمالیں پہن لیتی ہیں
بہت ہی دور دل کےکونے میں
کہیں اندر دبی جینے کی خواہش تک
سلگ اٹھتی ہے بے پایاں
تمھیں کیسے بتائیں ہم
مہینے تو بدلتے ہیں
دسمبر ٹھہر جاتا ہے
مونا علی مونا
0