لاہور (نیا محاذ ) دھماکے دار ہفتہ شروع، فریقین آخری پتہ کھیل گئے،بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے،اب مسلم لیگ (ن )سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگل لی۔ فیض حمید پر فردجرم عائد یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا آخری پتہ کھیل دیا۔PTI پس پردہ PPP سے معاملات طے کر کے شہباز حکومت گرانے کے چکر میں مصروف عمل ہے۔ معروف تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا ۔ روزنامہ “جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان ’’آخری پتے کا کھیل ‘‘ میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ دھماکہ خیز ہفتہ گزر گیا، دھماکے دار ہفتہ شروع، فریقین آخری پتہ کھیل گئے۔ ’’ہم حکومت سے کسی پیشگی مطالبے یا غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہیں‘‘، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی، شبلی فراز، اسد قیصر، سلمان اکرم راجہ، شیخ وقاص وغیرہ کی نئی نویلی بردباری، لجاجت اور منکسر المزاجی، منت سماجت PTIکی انوکھی تصویر اور خیرہ کن کہانی سامنے ہے۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، کاش 10اپریل 2022کو یہی رویہ اپناتے تو سیاسی رفعتیں پاتے۔PTI رہنماؤں کی گھن گرج، ’’عزم صمیم کہ کرپٹ سیاستدانوں کی ’فارم 47‘ حکومت کو چمٹے سے نہیں اٹھائیں گے‘‘، بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے۔قبل ازیں عمران خان نے بقلم خود مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، بنفس نفیس حکومت سے مذاکرات کو حلال قرار دے دیا۔ ستم ظریفی دوران بغیر معافی مانگے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کو ہم جولی بنایا اور اب مسلم لیگ (ن )سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگل لی ہے، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ نیا یوٹرن ملکی سیاست کیلئے خوش آئند ہے۔ یقیناً! سیاسی جماعتوں کی بیٹھک، سیاسی استحکام کی طرف شروعات، سیاسی رواداری کیلئے ایک اہم قدم ہے۔
کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ ’’ڈی چوک پر خون کی ندیاں رواں، نشانہ بازوں نے تاک تاک کر لاشوں پہ لاشیں گرائیں‘‘ تو نرم دل عمران خان سُن کر صدمہ سے نڈھال ہو گئے۔ ’’آخری پتہ‘‘ کھیلنے کا بڑا فیصلہ کر ڈالا۔ نئی نویلی ہزیمت ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ کا حاصل حصول، ’’بھاگو اور جان بچاؤ‘‘، نیا ٹرینڈ ’’گولی کیوں چلائی‘‘ سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ ’’گولی کیوں چلائی‘‘ یا ’’گولی نہیں چلی‘‘، میرے نزدیک دونوں مؤقف مبالغہ آمیز، جھوٹ سے آلودہ ہیں۔ عمران خان کیلئے انسانی جان کی کتنی اہمیت، مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ 2سال پہلے ملتان جلسہ دوران بھگدڑ ہلاکتوں اور زخمیوں کی جو قدر افزائی ہوئی، نہ صرف جلسہ جاری رہا، کسی کا جنازہ پڑھا نہ زخمی کارکنوں کی عیادت کی۔ سیاسی جلوسوں پر فائرنگ سے بھی وطنی تاریخ لبالب ہے۔ مثال کیلئے بھٹو حکومت کی 23مارچ 1974کو لیاقت باغ میں ولی خان کے جلسے پر گولیوں کی بوچھاڑ، دو درجن کارکنان کی شہادت، 9اپریل 1977قومی اتحاد کے جلوس پر لاہور ہائیکورٹ کےسامنے فائرنگ (بنفس نفیس جلوس کا حصہ) 9افراد کی شہادت درجنوں زخمی، درجنوں ایسے واقعات کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ مارچ سے پہلے عمران خان احتجاجی ناکامیوں سے مزین، ہر احتجاج PTIسیاست کو نقصان پہنچا گیا، سبق نہیں سیکھا۔ ناکامیوں کے بھرپور تجربہ کے باوجود بلکہ تازہ بہ تازہ آخری پتہ کھیلنے کا اعلان، اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست کو زندہ یا مردہ درگور کرنا ہی ہے۔
کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیزی نے لکھا کہ آخری پتہ! 14دسمبر تک 2مطالبات، (عمران خان کی رہائی اور 9مئی 2023/ 26نومبر پر جوڈیشل کمیشن) نہ مانے گئے تو ’’سول نافرمانی اور ترسیلات زر رُکوانا‘‘،24 نومبر تازہ بہ تازہ ناکامی کے بعد بھی کس گھمنڈ پر نیا اعلامیہ، سمجھ کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ایک طرف غیر مشروط مذاکرات، دوسری طرف انہی تاریخوں میں سول نافرمانی اور غیرملکی ترسیلات زر رُکوانے کا الٹی میٹم، عمران خان کی دوغلی سیاست ہی متحمل ہو سکتی ہے۔ چند دن پہلے جنرل ( ر) فیض حمید پر فردجرم عائد یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا آخری پتہ کھیل دیا۔ علاوہ ازیں GHQ پر عمران خان کی چڑھائی، عمران خان کا صدر علوی سے مل کر نوٹیفیکیشن سے کھیلنا، اگر فیض عمران NEXUS پر اس خانے میں گرفت نہ ہو پائی تو خاطر جمع رکھیں باقی تمام کیسز بشمول سانحہ 9 مئی پر تادیبی کارروائیاں بے اثر رہنی ہیں۔ اب جبکہ عمران خان سیاست کا TITANIC اسٹیبلشمنٹ کے برفانی تودے سے ٹکرا چکا ہے، آنیوالے دن لرزہ براندام رکھیں گے۔ ایسے میں بیرسٹر گوہر کی مذاکرات کی پیشکش، وطنی سیاسی استحکام میں مددگار بن سکتی ہے۔ میرے نزدیک چیئرمین PTI کا بروقت فیصلہ اور ایک احسن قدم ہے۔ ایک اہم خبر اقتدار کی غلام گردش میں اور بھی، PTI پس پردہ PPP سے معاملات طے کر کے شہباز حکومت گرانے کے چکر میں مصروف عمل ہے، میرے نزدیک خوش آئند ہے۔ شہباز پرواز کی ایسی کریش لینڈنگ ہو بھی جائے تو ایسی قربانی سیاسی استحکام کیلئے تریاق ثابت ہو گی۔ بہر صورت، وطنی صورتحال فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ باقی رہے نام اللّٰہ کا!
0