تحریر : ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
ایک خوفزدہ نوجوان نے ایک کمہار سے کہا :اگر کسی دن تمھارے برتن نہ بکے تو کیا کرو گے ۔
کمہار نے کہا تم یہ بات کسان سے پوچھو ۔
چنانچہ خوفزدہ انسان کسان کے پاس پہنچا اور اس ے جا کر پوچھا کہ اگر 6 مہینے کی محبت کے بعد تمھاری فصل ہی نا اگی تو تم کیا کرو گے ۔ کسان نے کہا کیا تم نے کبھی کشتی پر سفر کیا ، اگر تم یہ بات سمجھنا چاہتے ہو جاؤ دریا کے کنارے فیقہ ملاح ہے ۔ وہ تمھیں یہ بات سمجھا دے گا ۔
خوفزدہ نوجوان ملاح کے پاس جا پہنچا تو اس نے کہا اگر کبھی تم دریا کے بیچ جا کر پھنس جاؤ تمھاری کشتی ڈوب جائے تو کیا ہو گا ؟ملاح بہت دانا انسا ن تھا وہ سمجھ گیا کہ اسے میرے دوست کسان نے بھیجا ہے تا کہ میں اسے ناکامی کے خوف سے نکال کر کامیابی کی محبت سے اس کا دل بھر ڈالوں ۔
ملاح نے کہا بابو میں زیادہ پڑھا لکھا انسان نہیں :اس لیے ایسی باتیں نہیں سمجھتا ۔ البتہ ایک حل ہے کہ تمھیں تمھارے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے ۔ ملاح نے کہا آؤ کشتی کی سیر کرتے ہیں ۔ خوفزدہ نوجوان کشتی میں بیٹھ گیا اور ملاح نے بسم اللہ پڑھ کر کشتی دریا میں ڈالی ۔ کشتی جب عین درمیان میں پہنچ گئی تو ملاح نے کہا ،نوجوان اب بتاؤ وہ کیا کہہ رہے تھے کہ کشتی ڈوب گئی تو کیا ہو گا ؟ اب ہم عین درمیان ہیں اور کشتی آگے نہیں جا رہی ۔ نوجوان ایک دم سے پریشان ہو گیا اور کہا ایسا کیوں ؟
ملاح نے کہا شاید موت کا وقت قریب آگیا ہے ۔ نوجوان یہ سن کر اور گھبرایا اور ملاح کی طرف پریشانی سے دیکھنے لگا ۔ ملاح نے کہا اچھا چلو یہ بتاؤ تم دریا میں مر گئے تو کیا ہو گا ؟
نوجوان : نہیں نہیں آپ کشتی چلائیں ۔ مجھے بتائیں کیسے اس کو چلانا میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔ ملاح شاید تم یہ نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں اپنی موت کا انتطار کرنا چاہیے ۔ نوجوان گھبرایا اور کہا نہیں نہیں میں جینا چاہتا ہوں ۔ میں ایسے نہیں مرنا چاہتا پلیز مجھے بچا لیں ، پلیز کچھ کریں ۔ ملاح لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا میں عین درمیان میں ہیں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ نوجوان مزید گھبراتے ہوئے رونے لگا ۔
ملاح نے مسکرا کر کہا ۔ سنو نوجوان کیا تم میری مدد کرو گے کوشش کریں یہاں سے نکلنے کی ۔نوجوان نے حامی بھری تو ملاح نے کہا چلو واپس چلتے ہیں اور کشتی واپس کنارے لایا تو نوجوان کو کچھ حوصلہ آیا ۔ سنو بیٹا ! تمھیں جس طرح کشتی میں بنا ءکسی خرابی کے جانے کا یقین تھا اگر تم اتنا یقین خدا پر رکھو تو زندگی میں ناکام نہیں ہو گے ۔ انسان اس زندگی میں مسافر ضرور ہے مگر اس کی حیات کے نظام کے لیے اللہ نے اسباب پیدا کیے ہیں ۔ اس نے اپنے بندوں کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا ۔ تمھارا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ تم کشتی نہ چلا سکو ۔ تمھارا مسئلہ یقین اور بے یقینی کے درمیان تھا ۔ ایک کشتی ایک دریا میں ایک ملاح جو ماہر تھا وہ پریشان نہیں تھا تو تم کیوں تھے ۔ زندگی کے اتنے حسین منظر کو دریا کی سیر کے لطف کو چھوڑ کر تم اندھیرے کو دیکھ رہے تھے یہی تمھاری ناکامی کی وجہ ہے ۔ کسان اگر یہی اندھیرا دیکھ کر سوچ کر زمین میں حل نہ چلائے تو ساری دنیا کھانے سے محروم ہو جائے گی ۔ کمہار میرا دوست اگر یہی بات سوچ کر برتن بنانا چھوڑ دے تو تم کھانا کیسے کھاؤ گے ۔
زندگی یقین اور بے یقینی کی کیفیات کا ایک مرکز ہے ۔ جہاں جتنے والے اور ہارنے والے دونوں ہی پائے جاتے ہیں ۔ جیتنے والوں کو پڑھو سوچو اور سمجھو تم بھی جیتو گے اگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہارنے پر لگاؤ گے تو خوف کے سوا کچھ نہ ملے گا ۔ زندگی کا لطف اٹھاؤ ۔ آج ہمارے نوجوان بھی اکثر منفی سوالات کی بارش کر دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا علم حاصل کرنا نہیں بلکہ ان کا خوف ہے جو ہر لمحہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ ناکامی کی بہت سی وجوہات میں سے سب سے پہلی وجہ ہی یقین کا نہ ہونا ہے ۔
نوٹ : ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں