0

تبدیلی کی آوازیں ۔۔۔ شہراقتدار میں”نئی سیاسی کھچڑی“ تیار ۔۔۔ معاملہ نگلا جا رہا ہے نہ ہی اُگلا جا رہا ہے

سید صداقت علی شاہ
تندرستی ہزار نعمت ہے۔ فٹ اور چاق و چوبند رہنے کیلئے بہترین غذا کسی نعمت سے کم نہیں۔ سنا ہے اگر ناشتے میں کافی، چیا سیڈ، چکندر کا جوس، دہی، چپاتی، بسکٹ اور کھجوریں استعمال کی جائیں تو انسان کو تھکن نہیں ہوتی۔ دوپہر کے کھانے میں کڑی پکوڑا، دیسی مرغی یا مٹن، دہی، چپاتی، سلاد اور گرین ٹی لی جائے تو نیند کا غلبہ طاری نہیں ہوتا۔ رات کو ہلکی لیکن قوت بخش غذا مثلاً دلیہ، کوکونٹ کا جوس اور انگور (یا کوئی ایک پھل) لے لیا جائے تو نیند بڑی شاندار آتی ہے اور ہاضمہ بھی ٹھیک رہتا ہے۔

کہتے ہیں، رات کو کھچڑی بھی بڑی سود مند رہتی ہے۔کھچڑی پکانے کی ترکیب بھی اتنی مشکل نہیں ہے۔آپ کے پاس چاول، مونگ کی دال، پیاز، آئل، پانی، زیرہ، کالی مرچ ہونی چاہیے۔ کھچڑی تیار ہو جائے گی۔ ہاں ”سیاسی کھچڑی“ پکانا ایک مشکل کام ہے۔ اقتدار کے شہر اسلام آباد میں آج کل”نئی سیاسی کھچڑی“ تیار کرنے کی مشق جاری ہے۔ اس ”سیاسی کھچڑی“کو تیار کرنے کیلئے مطلوبہ لوازمات اکٹھے کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
24 نومبر کی”فائنل کال“ اور 26 نومبر کی”مس کال“ کے بعد شہر اقتدار کی فضاؤں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس دھوئیں کی مہک کراچی اور لاہور تک محسوس کی جا رہی ہے۔ 30 نومبر کو پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری کے انٹرویو نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ آصفہ بی بی کہتی ہیں کہ ”عمران خان کو علاج کیلئے مکمل منصفانہ اور جائز سہولتیں ملنی چاہئیں۔ بانی پی ٹی آئی کی زندگی کو درپیش خطرات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے، کوئی بھی شخص جو یہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے تو ہمیں اس کے تحفظ کیلئے ضروری چیزوں کا سنجیدگی سے اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے خاندان کے کئی افراد کو سیاسی وجوہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ جیلیں اور پھانسی بھی برداشت کرنا پڑی، اس لیے وہ اس معاملے کی سنگینی کو زیادہ شدت سے محسوس کرسکتی ہیں“۔
2 دسمبر کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھنے والے سینیٹر فیصل واوڈا نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی۔ اس دوران ملک میں نفرت اور تقسیم کی سیاست سے پیدا ہونے والے بحران پر گفتگو کی گئی۔
4 دسمبر کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان کے گھر گئے اور ان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریباً 3 گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات میں جے یو آئی کی طرف سے سینیٹر عبدالغفور حیدری، کامران مرتضیٰ، حاجی غلام علی، لطف الرحمان اور اسعد محمود شریک ہوئے۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ اپنے چیئرمین کے ساتھ رہے۔ ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری میڈیا سے بات کیے بغیر ہی واپس چلے گئے جبکہ پیپلزپارٹی کے ارکان بھی بات کرنے سے گریز کرتے رہے۔ راجہ صاحب نے صرف اتنا کہا کہ ”ملاقات اچھی رہی“۔ جمعیت کے رہنماؤں کی گفتگو میں فوکس صرف مدارس رجسٹریشن بل پر دستخط پر رہا۔
4 دسمبر کی دوپہر کو ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے ایبٹ آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ”تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں“۔
اسلام آباد میں 26 نومبر کو کس نے گولی چلائی؟ کس کے کہنے پر چلائی؟ کیوں چلائی؟ کچھ پتہ نہیں۔ البتہ یہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ گولی کا معاملہ نہ نگلا جا رہا ہے اور نہ ہی اُگلا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ تو پہلے ہی فورسز کو اس حوالے سے کلین چٹ دے چکی ہے۔ حکومتی وزراء پہلے اردو میں اور بعد میں انگریزی میں وضاحتیں دے دے کر تھک چکے ہیں لیکن ملک کی”سوشل میڈیائی بریگیڈ“ اور ”غیرملکی میڈیا“ وزرا ءکی اس اردو اور انگریزی”بھاشا“ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔پیپلزپارٹی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، اے این پی،استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ قاف کو بھی ”گولی کی بولی“ سمجھ نہیں آ رہی اور آنی بھی نہیں چاہیے۔
ہر کوئی اس بولی سے دامن چھڑاتا نظر آتا ہے اور خود حکومت بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ 26 نومبر کی رات کوئی ”گولی“ چلی۔ لیکن اس گلی، محلے، چوک، چوراہے کا کیا کریں؟ جہاں ہر کوئی یہ کہتا اور سنتا ملتا ہے کہ ”بڑا ظلم ہو گیا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔مظاہرین کا کوئی قصور نہیں تھا“۔
اقتدارکی راہداریوں میں آتے جاتے افراد کا کہنا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں جتنے بتائے اور دکھائے جا رہے ہیں۔ حکومت پہلے ہی تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے، اس پر 27 نومبر کی صبح سے اب تک سامنے آنے والے ”بیانیے کی دوڑ“ میں وہ بہت پیچھے ہے۔ایسی ”کمزور“ حکومت کسی ”خطرے“ سے کم نہیں ہوتی۔ حکومت اپنا دفاع نہیں کر پا رہی تو کسی اور کیا ”سنبھالا“ دے گی۔
اب تو بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سینیٹر فیصل واوڈاکی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات بھی ہو گئی ہے۔ بلاول بھٹو پہلے ہی 3 گھنٹے کی سیر حاصل گفتگو کر چکے۔ مسلم لیگ (ن )کا کوئی بھی ”بڑا“ ابھی مولانا کے پاس نہیں گیا۔ باخبر ”لوگوں“ کا کہنا ہے کہ (ن) والوں کو مولانا سے اب کوئی کام ہی نہیں یا پھر ملاقات کیلئے کوئی ”ایجنڈا“ ہی نہیں۔جہاں تک بات ہے تحریک انصاف کی تو مولانا کے دروازے ان کیلئے پہلے بھی کھلے تھے اور اب بھی کھلے ہیں۔
قومی حکومت یا پھر ایوان کے اندر سے تبدیلی کی آوازیں ”نئی سیاسی کھچڑی“ کی خوشبو کے ساتھ رچ بس گئی ہیں۔ماہرین صحت کے مطابق صبح، دوپہر اور رات کو وہی کھائیں جو اوپر تجویز کردہ ہے۔ کیونکہ اس سے انسان اگر ”قید“ میں بھی ہو تو صحت مند اور ہشاش بشاش رہ سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر ہاضمہ خراب ہو گیا ہے تو پھر ”کھچڑی“ سے بہتر کوئی غذانہیں۔ شہر اقتدار میں آج کل یہی ”کھچڑی“پکانے کی تیاری ہے۔
نوٹ : ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں