قومی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو چکی ہے، معاشی صحت کو جانچنے کے کئی اشاریے اِس حوالے سے مثبت پیغام دے رہے ہیں سب سے اہم اشاریہ سٹاک مارکیٹ انڈکس ہے جو85 ہزار کی نفسیاتی حد ایک عرصہ پہلے عبور کر چکا ہے۔ یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔انڈکس کا مثبت رجحان آنے والے دِنوں میں مثبت معاشی سرگرمیوں کا عکاس ہے۔ ہماری سٹاک مارکیٹ خطے کی بہترین کارکردگی دکھانے والی مارکیٹوں کی فہرست میں اولین پوزیشن پر ہے۔ سٹاک مارکیٹ کی بہترین کارکردگی میں لوکل سرمایہ دار ہی نہیں، بلکہ کارپوریٹ سیکٹر اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی شامل ہے۔دوسری طرف ہماری مالیاتی اور زری پالیسیوں نے بھی معیشت کو بیک آن ٹریک لانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ شرح سود21/11فیصد کی بلند ترین سطح سے گھٹ کر 12/14 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق جاری مالی سال کے آخر تک شرح سود9فیصد تک لائی جائے گی۔ شرح میں کمی ایک انتہائی مثبت اشاریہ ہے،جو معیشت کے مضبوط ہونے کا عکاس ہے شرح سود میں کمی سرمایہ کاری کے رجحانات کے فروغ کا باعث بنے گی۔سر دست معاشی سرگرمی اس رفتار سے وقوع پذیر نہیں ہو رہی جو کہ مطلوب ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک اہم وجہ سرمائے کی لاگت،یعنی بلند شرح سود ہے مہنگے سرمائے کو کاروبار اور پیداواری سرگرمیوں میں لگانا نفع بخش نہیں ہوتا،اس لئے سرمایہ کار،سرمایہ کاری سے پرہیز کرتا ہے،جس کے باعث کاروباری سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں۔ پیداواری عمل سست روی کا شکار ہو جاتا ہے،شرح سود میں کمی اور مسلسل کمی ایک مثبت عمل ہے جو آنے والے وقتوں میں معاشی تیز روی اور کھلے پن کو ظاہر کرے گا۔اِس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے اور رسد میں بہتری کے باعث اشیاء کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھنے میں آئے گی۔ ویسے عمومی سطح پر مہنگائی میں کمی آ رہی ہے،اشیاء کی قیمتیں تسلسل کے ساتھ کمی کے رجحان کو ظاہر کر رہی ہیں، پیداواری عمل میں تیزی آنے کے بعد اور رسد میں بڑھوتی ہو گی جس سے قیمتوں میں مزید کمی ہو گی۔پیداواری عمل کے بڑھنے سے برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا،زرمبادلہ کی یافت میں بہتری سے توازن تجات اور ادائیگیوں کے میزان میں مثبت رجحانات غالب آئیں گے۔معاشی استحکام پیدا ہو گا۔ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے پیکیج کے اجراء سے پاکستانی معیشت کی آؤٹ لک میں جو بہتری آئی ہے وہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی صورت میں ڈھل رہی ہے۔عالمی اداروں کے پاکستان پر اعتماد میں اضافے کا اظہار ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے چھ ارب ڈالر کی گرانٹ کی منظوری سے بھی ہوتا ہے۔امریکہ نے بھی پاکستان کے معاشی استحکام کے بارے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔سب سے اہم اور تازہ ترین خبر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان27مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط ہیں، دونوں ممالک میں صنعت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، خوراک، کان کنی، صحت، پٹرولیم، معدنیات، ہنر مند افرادی قوت اور دیگر شعبوں میں تعاون کا عہد کیا گیا ہے۔ ٹیکسٹائل، شعبہ سائبر سکیورٹی میں تعاون،مصالحہ جات اور سبزیوں کی برآمد بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے سعودی عرب کی طرف سے 2.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا ہے،معاشی قوانین کے تحت یہ2.2ارب کی سرمایہ کاری مضاربہ کے عمل کے ذریعے کئی گنا زیادہ پیدائش اور گردش زر کا باعث بنے گی۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں یہاں پاکستان میں نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں بڑھوتی آئے گی،پیداواری حجم میں اضافہ ہو گا،بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے،قابل ِ تصرف شخصی آمدنیاں بڑھیں گی، لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو گا، طلب بڑھے گی جسے پورا کرنے کے لئے مزید سرمایہ کاری کے رجحان کو فروغ ملے گا۔معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہی نہیں ہو گا، بلکہ معاشی حجم میں بھی اضافہ ہو گا،قومی آمدنی بڑھے گی، بجٹ پر قرضوں کے دباؤ میں کمی آئے گی۔ٹیکس وصولیاں، بہتر اور پیداواری مقاصد میں صرف کی جا سکیں گی۔یہ ایک خوش کن مستقبل کی نشاندہی ہے کہ کچھ بہتر ہونے جا رہا ہے اشاریے بہتر مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔آئی ایم ایف نے بھی بتدریج معاشی بہتری کے بارے میں مثبت رائے دی ہے اس کے ساتھ ساتھ مضبوط پالیسیوں کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے اور کہا ہے کہ سات ارب ڈالر کے نئے پروگرام کے تحت ٹیکس دائرہ کار بڑھایا، زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ، غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کے تعین میں حکومتی کنٹرول ختم کیا جائے گا۔ماشاء اللہ بہت اچھی باتیں ہیں معاشی استحکام کے لئے بہت کچھ کیا جانا چاہئے، لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو کتابی ہیں نظری ہیں عملی طور پر ان کا نفاذ ممکن نہیں ہے،کیونکہ ہمارے ہاں زمینی حقائق ایسا کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں یہاں پاکستان میں ہر شعبے میں ہر سطح پر مافیاز کا راج ہے یہ مافیاز اس قدر طاقتور ہیں کہ ان کی طاقت حکومت سے بھی زیادہ ہے مثال کے طور پر زرعی ٹیکس کے معاملے کو دیکھ لیں کئی دہائیوں سے عالمی ادارے،ہمارے قرض خواہ ادارے، اِس حوالے سے مسلسل کہتے رہے ہیں کہ زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہئے،لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام تین سال بعد ختم ہو جائے گا۔اربابِ حل و عقد کہہ رہے ہیں کہ یہ آخری بھی ہو سکتا ہے تین سالوں کے دوران تو یہ ایگری ٹیکس نافذ العمل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے اور اس کے بعد پہلے کی طرح یہ جا وہ جا ہو گا۔ہمارے ہاں جب بھی ایگریکلچرل کی بہتری کے بارے میں کچھ کیا جاتا ہے تو اس کے فائد زرعی شعبے کا مافیا لے جاتا ہے۔کسان کی بہتری کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے فوائد یہی مافیا لے جاتا ہے، کسان کی حالت پہلے جیسے ہی رہتی ہے۔ ہماری قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ23فیصد ہے،یعنی ہم اگر 100روپے کماتے ہیں تو اس میں 23روپے زرعی شعبے سے حاصل ہوتے ہیں اس طرح یہ سب سے بڑا شعبہ قرار پاتا ہے ہماری کام کرنے والی آبادی کا غالب حصہ، شعبہ زراعت سے منسلک ہے، لیکن اس شعبے کے عاملین کی حالت انتہائی مخدوش ہے، بڑی بڑی زمینوں پر قابض زمیندار،جاگیردار سانپ بنے بیٹھے ہیں۔ بیان کردہ معاشی بہتری کے اشاریے درست و حقیقی ہیں ان سے کلی معیشت میں بہتری آنے لگی ہے،لیکن اس بہتری و بڑھوتی کے مثبت اثرات عوامی معیشت پر محسوس نہیں ہو رہے۔ڈالر کی قیمت میں استحکام، شرح سود میں کمی اور سی پی آئی میں کمی درست ہے،لیکن عام آدمی ابھی تک بجلی، گیس اور توانائی کے ذرائع کی بھاری بھر کم قیمت تلے دبا ہوا ہے،اس کی معیشت ان اشیاء کی قیمتیں ادا کرنے میں ہلکان ہو رہی ہے۔
رائے -کالم –
0