ملائیشیا کے وزیراعظم جناب انور ابراہیم کے دورے نے پاکستان کے مشکل معاشی حالات کو بہت بڑا سنبھالا دیا ہے اس دورے میں چار اہم ایم او یو پر دستخط کیے گئے ہیں جو صرف ایک سال کے عرصے میں ہی پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مددگار ثابت ہوں گے ان معاہدوں میں پہلا معاہدہ گوشت ایکسپورٹ کا ہے ملائیشیاء آسٹریلیا، تھائی لینڈ،انڈونیشیا اور دیگر ممالک سے سالانہ پانچ سو ملین ڈالر کا گوشت امپورٹ کرتا ہے ملائشیاء کی ایک بڑی آبادی دیہی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ملا یشیاء کو اپنی ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے گوشت دنیا کے بیشتر ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے جو ضرورت انشاء اللہ اب پاکستان پوری کرے گا دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ پاکستان ہر سال ملائیشیا کو دو سو ملین ڈالر کا گوشت ایکسپورٹ کرے گا۔دوسرا معاہدہ چاول کا ہوا ہے ملائشیاء پاکستان سے سالانہ ایک لاکھ ٹن چاول خریدے گا ان کو اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریبا ہر سال بیس لاکھ ٹن چاول کی ضرورت ہوتی ہے اگر پاکستانی ایکسپورٹرز چاول کی کوالٹی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور عرب ممالک کی طرح بے ایمانی نہ کی تو اس بات کا یقین کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اکیلا ہی ملائیشیاء کی چاول کی ضرورت کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستان میں چاول کی پیداوار تقریبا اسی لاکھ ٹن ہے اور پاکستان کو ملکی ضرورت کے لیے تقریبا تیس لاکھ ٹن کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہمارے پاس پچاس لاکھ ٹن اعلی کوالٹی کا ا ضافی چاول موجود ہوتا ہے۔تیسرا معاہدہ جے ایف تھنڈر 17 کے حوالے سے طے پایا پاکستان اور ملائیشیاء کے درمیان ان لڑاکا طیاروں کی خریداری کے حوالے سے بہت سی ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن اب اس معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
چوتھا معاہدہ ربڑ کے حوالے سے ہوا اس وقت ملایشیاء میں تقریبا ایک لاکھ سا ٹھ ہزار پاکستانی کاروبار اور نوکری کر رہے ہیں جو پاکستان کو ہر سال ایک ارب ڈالر زر مبادلہ بھیجتے ہیں جو پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے پاکستان ملائیشیاء سے پام آئل، ربڑ الیکٹرانکس اور دیگر چیزیں خریدتا ہے اگر ان معاہدوں میں بارٹر سسٹم کو شامل کر لیا جائے تو سالانہ کروڑوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔پاکستان کو اگر تیزی سے ترقی کرنی ہے تو انہیں چائنہ کے ساتھ بھی ایسے ہی مزید معاہدے کرنا ہوں گے پاکستان اس وقت چین سے سالانہ بیس بلین ڈالر کی چیزیں امپورٹ کرتا ہے جبکہ چائنہ پاکستان سے صرف تین بلین ڈالر کی چیزیں امپورٹ کرتا ہے جتنی جلدی ممکن ہو چین سے ٹریڈ کوبارٹر سسٹم پر لانا ہوگا پاکستان کے پاس جھینگا، مچھلی، چاول، نمک کے علاوہ بہت سی دوسری چیزیں موجود ہیں جو چین میں فروخت کی جا سکتی ہیں اگر آئندہ چند سالوں میں پاکستان چین کے ساتھ ہونے والی ٹریڈ کو مقامی کرنسی میں لے جائے تو سمجھ لیں ترقی کی رفتار میں سو گنا اضافہ ہو گیا۔معزز قارین شاید آپ کے علم میں ہوگا کہ پاکستان سالانہ کروڑوں ڈالر گاڑیوں کے ٹائروں کی امپورٹ پر خرچ کر دیتا ہے لیکن اب اس کو بریک لگنے جا رہی ہے آئندہ سال اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ٹائر سازی کی صنعت میں خود کفیل ہو جائے گا جس سے کروڑوں ڈالر سا لانہ کی امپورٹ سے بچے گا بلکہ کروڑوں ڈالر کی ایکسپورٹ بھی کرے گا۔
پاکستان میں ٹائر سازی کی ایک بہت بڑی فیکٹری تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جو اس سال کے آخر یا پھر اگلے سال کے پہلے مہینوں میں اپنی پروڈکشن شروع کر دے گی پاکستان کو گاڑیوں کے لیے سالانہ تقریبا ساٹھ لاکھ اور بسوں ٹرکوں کے لیے تقریبا سولہ لاکھ ٹائروں کی ضرورت ہوتی ہے اس سے پہلے جنرل ٹائر اور سروس دو کمپنیاں ملکی ضرورت پوری نہیں کر پا رہی تھیں سروس کی جانب سے اپنی ٹائر سازی کی گنجائش کو بیس لاکھ تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو پہلے تقریبا آٹھ لاکھ تھی اس نئی فیکٹری کے چلنے کے بعد پاکستان میں تقریبا تیس لاکھ ٹائر مقامی سطح پر تیار کیے جا سکیں گے جس سے ملک میں تقریبا ایک کروڑ ڈالر کے ٹائر ایکسپورٹ کرنے کی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔پاکستانی قوم نے بہت صبر کے ساتھ مشکل وقت کاٹا ہے اب انشاء اللہ ان کے صبر کا پھل ملنے کا وقت نزدیک آ گیا ہے پاکستان کو ان مشکلات سے نکالنے میں وزیراعظم پاکستان جناب میاں شہباز شریف، ان کی ٹیم اور دوست ممالک نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
ریاست نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی جماعت اور اس کے لیڈران سے نرمی نہیں برتی جائے گی اور یہ ضروری ہو چکا تھا ترقی کی راہ پر گامزن معیشت کو ہر فتنے فساد سے محفوظ بنایا جائے گا پاکستان کو جتنے خطرات باہر سے لاحق ہیں اتنے ہی پاکستان کے اندر موجود غداروں سے بھی ہیں جو کسی صورت پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے اب ریاست کو دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا ملک دشمن جماعتوں ان کے حامیوں اور سہولت کاروں کے خلاف بے رحم کریک ڈاؤن کرنا ہوگا پاکستان کی ترقی ان شر پسندوں کے خاتمے سے مشروط ہے۔شنگائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے لیے جو سربراہان مملکت پاکستان تشریف لا رہے ہیں انہیں ہر حال میں پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کرنا ہوگا جلسے جلوسوں احتجاجوں اور دھرنے والے گروہوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنا ہوگا اس کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔