ہمارے وزیرخزانہ جو بیرون ملک سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لئے بلائے گئے ہیں، مسلسل یہ کوشش کررہے ہیں ڈوبنے والی معیشت کا کوئی سرا ہاتھ آ جائے تاکہ وہ اسے کھینچ کے نکال سکیں مگر چادر چھوٹی اور پاؤں بڑے کے مصداق ایک سرا ہاتھ آتا ہے تو دوسرا ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے:
میں زندگی کے دونوں سرے ڈھونڈتا رہا
پہلا نہیں ملا کبھی آخر نہیں ملا
یہ صورت حال جب پیدا ہوجائے تو اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں جو کہ یہ حکومت اور وزیرخزانہ مار رہے ہیں، وزیراعظم شہبازشریف پچھلے چند دنوں سے معیشت کی بہتری کا اعلان کررہے ہیں، موڈیز اور دیگر اقتصادی سروے رپورٹوں کا حوالہ دے کر مبارکبادیں دے رہے ہیں کہ معیشت سنبھل گئی ہے، مہنگائی میں کمی آ چکی ہے ایسی باتوں کی شیدے ریڑھی والے جیسے عوام کو سمجھ نہیں آتی، انہیں تو صرف اپنے اردگرد کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے،مہنگائی کم ہو گئی ہے یا معیشت آسمان کو چھو رہی ہے۔ کل اس نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ وزیراعظم نے قیمتیں کم ہونے کی جو بات کی ہے، کیا انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کس چیز کی قیمت کم ہوئی ہے، وہ کہنے لگا پہلے سوئی گیس کا بل دو تین سو روپے آتا تھا، اس باراڑھائی ہزار روپے آ گیا ہے۔ بجلی پر جو عارضی ریلیف دیا گیا ہے، اس سے پندرہ سو روپے کی کمی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف گیس کا بل 2ہزار روپے بڑھ گیا ہے پچھلے ہفتے تک بلڈ پریشر اور شوگر کی دوائی نو سو روپے میں آ جاتی تھی، اس بار سولہ سو روپے میں آئی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے آلو، پیاز، ٹماٹر کی قیمت سپلائی بہتر ہونے کی وجہ سے کم ہو گئی تو یہ معیشت کے بہتر ہونے کا اشارہ ہے۔ حالت یہ ہے بابو جی کہ میں مہینے کے چالیس ہزار روپے کماتا ہوں، مگر میرا گھر نہیں چل رہا جو لوگ اس سے کم پر زندہ ہیں، وہ کیسے گزارا کررہے ہیں، ان کے بارے میں سوچ کے خوف آتا ہے۔ شیدے ریڑھی والے کی یہ باتیں ہوا میں نہیں ہوتیں بلکہ یہ زمینی حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ عام آدمی کی آواز ہیں جسے الٹے سیدھے سروے متاثر نہیں کرتے بلکہ اسے تو اپنے اردگرد کے حالات سے فرق پڑتا ہے۔ ہم نے بھی یہ باتیں کئی دہائیوں سے مسلسل سنی ہیں کہ معیشت بہتر ہو گئی ہے، دیوالیہ ہونے سے بچ گئے ہیں، مہنگائی پر قابو پا لیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کل یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی کہ مہنگائی پہلی بار سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے۔ غریبوں کو پہلے پڑھایا تو جائے یہ ڈیجٹ والی مہنگائی ہوتی کیا ہے۔ انہیں تو اس مہنگائی کا علم ہے جو روزانہ انہیں پاگل کتے کی طرح کاٹنے کو دوڑتی ہے اور جس کے بارے میں سوچ سوچ کے وہ خود بھی پاگل ہو چکے ہیں۔ایک طرف حکومت اس طرح کی خوشحالی کے ڈنکے بجاتی ہے تو دوسری طرف قیصر بنگالی جیسے ماہرین معیشت جو حکومت کی صفوں میں بھی رہے ہیں، مستعفی ہو کر انکشافات کرتے ہیں معیشت ڈوب چکی ہے، دیوالیہ نکل چکا ہے، کوئی ملک قرضہ دینے کو تیار نہیں، آئی ایم ایف نے بھی انکار کر دیا ہے، حکومت اصلاحات پر آمادہ نہیں اخراجات کا بوجھ کم کرنے کو تیار ہے اور نہ ایسی کوئی تجاویز سننا چاہتی ہے۔ ایسی باتوں کو حکومت کیوں سنے جو اسے اچھی نہیں لگتیں۔ اسے تو اچھی اچھی باتیں ہی سننی ہیں جن میں یہ خوشخبری سنائی گئی ہو، بغیر کوئی بڑا کام کئے، بغیر کسی اصلاح کے، معیشت خود بخود جادوئی طور پر بہتر ہوگئی ہے۔بحران سے نکل آئے ہیں اور جلد ہی عوام کو دودھ اور شہد کی نہروں والے نظام سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملے گا۔ قیصر بنگالی نے تو یہ تک کہہ دیا ہے حکومت اثاثے بیچنا چاہتی ہے مگر کوئی لینے کو تیار نہیں۔ یہ قیصر بنگالی جیسے لوگ حکمرانوں کا سارا پلان ناکام بناتے اور حکمرانی کا مزا کرکرا کر دیتے ہیں۔ حکومت نے ایک بڑا قدم یہ اٹھایا تھا کہ تاجروں کو انکم ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے خلاف جو ملک گیر تاریخی ہڑتال ہوئی اس نے لگتا ہے یہ پلان بھی ناکام بنا دیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے حکومت اس طبقے پر ٹیکس لگانے کو تیار نہیں جو ملک کا سب سے خوشحال طبقہ ہے۔ عوام کو سیلز ٹیکس کی چھری سے ذبح کیا جاتا ہے اور براہ راست ٹیکس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ اصولی طور پر تاجروں کو ٹیکس دینا چاہیے اس میں کوئی دو آراء نہیں، وہ کماتے ہیں تو حکومتی خزانے میں حصہ بھی ڈالیں، مگر سوال یہ بھی ہے کہ ایف بی آر کی اصلاح کون کرے گا جس میں کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے۔ سنا ہے وزیراعظم شہبازشریف ہدف پور انہ ہونے پر ایف بی آر کے افسروں سے نالاں ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے حکومت کے پَر کیوں جلتے ہیں کل ایک ریسٹورنٹ پر کھانا کھایا تو چار ہزار روپے کا بل بنا جس میں چھ سو روپے کا سیلز ٹیکس علیحدہ تھا۔ میرے ساتھ ایک باخبر افسر تھے، انہوں نے ریسٹورنٹ انتظامیہ سے پوچھا رسید پر ایف بی آر کا نمبر پرنٹ نہیں، یہ ٹیکس کیسے خزانے میں جائے گا، وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور بل بغیرٹیکس کے وصول کر لیا۔ تحقیق پر معلوم ہوا یہاں ایف بی آر کا جو انسپکٹر تعینات ہے وہ صرف رات کے وقت اپنی دیہاڑی لینے آتا ہے اور اوکے رپورٹ لکھ کر چلا جاتا ہے۔بات شروع ہوئی تھی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے۔ انہوں نے فرمایا ہے ملک خیرات سے نہیں چل سکتا، ٹیکس دینا پڑے گا۔ بسم اللہ جی بسم اللہ، کیا کہنے جی کیا کہنے۔ بات تو سولہ آنے کی ہے مگر جناب یہ بھی فرمائیں اس ملک کی اشرافیہ پر کب ٹیکس لگے گا۔ انہیں ٹیکس نیٹ میں کیسے لایا جائے گا، پھر ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ملک واقعی خیرات پر نہیں چلتے تاہم ملک ان عیاشیوں پر بھی نہیں چلتے جو قومی خزانے پر کی جاتی ہیں۔ معیشت کی حالت بُری ہے تو پھربچت بھی ضروری ہے تاکہ پیسہ بچے اور کسی کام آئے۔ مقروض معیشت کے سر پر شاہانہ اخراجات کے دریا بہانے کے آپ ٹیکس جتنا بھی لگا لیں بہتری نہیں آ سکتی۔ حکومت نے کوئی ایک ایسا کام کیا ہو تو بتائے جس سے اخراجات میں کمی کی کوئی صورت نکالی ہو۔ بھاری مشاہروں پر بھرتیاں بھی جاری ہیں اور سادگی کو دیس نکالا دیا ہوا ہے۔ عوام تو ٹیکس دے دے کر ادھ موئے ہو گئے ہیں۔ ایک بجلی کے بل میں ہی تیرہ قسم کے ٹیکس ادا کررہے ہیں، باقی ٹیکسوں کا تو شمار ہی نہیں۔ ملک واقعی خیرات سے نہیں چلتے تاہم ملک اس طرح بھی نہیں چلتے کہ عوام کو خیرات مانگنے پر مجبور کر دیا جائے۔