اسلام آباد ( نیا محاذ ) اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے اختر مینگل کا انکار خطرے کی گھنٹی تھی لیکن حکومت کو اس گھنٹی کی آواز ہی سنائی نہیں دی کیونکہ اس حکومت کی اپنی حالت ایک ایسی گھنٹی کی ہے جسے کوئی اور اپنی مرضی کے مطابق بجاتا ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے روزنامہ “جنگ ” میں شائع ہونیوالے کالم بعنوان “اختر مینگل نے استعفیٰ کیوں دیا؟” میں تہکہ خیز انکشافات کر دیئے ۔ھامد میر نے لکھا کہ اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ وفاقی حکومت کیلئے ایک سرپرائز ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے چند دن قبل اختر مینگل کو کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اختر مینگل نے وزیراعظم کو یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ میں تو سٹیک ہولڈر ہی نہیں، میری پارٹی کے پاس تو قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ہے، زیادہ نشستیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں، اس لئے وہی سٹیک ہولڈر ہیں، بلوچستان کا مسئلہ بھی یہی جماعتیں حل کریں۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے اختر مینگل کا انکار خطرے کی گھنٹی تھی لیکن حکومت کو اس گھنٹی کی آواز ہی سنائی نہیں دی کیونکہ اس حکومت کی اپنی حالت ایک ایسی گھنٹی کی ہے جسے کوئی اور اپنی مرضی کے مطابق بجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے سال تک اختر مینگل کی جماعت شہباز شریف کی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ صرف ایک سال میں ایسا کیا ہوا کہ اختر مینگل ناصرف شہباز شریف سے مایوس ہو گئے بلکہ انہوں نے قومی اسمبلی سے بھی استعفیٰ دے دیا؟ شہباز شریف کو یاد ہو گا کہ جب مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہباز شریف کے ساتھ آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل، خالد مگسی، شاہ زین بگٹی اور کچھ دیگر رہنماؤں کو مارگلہ روڈ اسلام آباد کے ایک سیف ہاؤس میں بلایا اور تحریک عدم اعتماد واپس لینے کیلئے کہا۔ خالد مگسی نے بڑی عاجزی سے کہا کہ اگر سارے فیصلے آپ نے ہی کرنے ہیں تو بہتر ہے ملک میں مارشل لاء لگا دیں۔ اختر مینگل نے اس اجلاس میں کافی سخت لہجہ اختیار کرلیا جس پر باجوہ کو دفاعی انداز اختیار کرنا پڑا اور انہوں نے کہا کہ مجھے وزیراعظم نے کہا ہے کہ آپ تحریک عدم اعتماد واپس کرا دیں تو میں نئے انتخابات کا اعلان کر دوںگا۔کالم میں حامد میر نے مزید لکھا کہ اختر مینگل کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر ذرہ برابر اعتماد نہیں تھا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد اختر مینگل نے عمران خان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا وعدہ سرفہرست تھا۔ اس تحریری معاہدے کے تحت اختر مینگل نے اپنے 4 ووٹ عمران خان کے پلڑے میں ڈالے۔ 2سال تک عمران خان نے کوئی وعدہ پورا نہ کیا تو انہوں نے عمران خان کی حکومت کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا اور بعد میں انہی4 ووٹوں کی مدد سے شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد شہباز شریف بھی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ کرسکے۔ اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ شہباز شریف پر نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست اور ریاست پر عدم اعتماد ہے۔ اختر مینگل کے استعفے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ یہ استعفیٰ وفاق کیلئے نیک شگون نہیں لیکن مریم نواز کی نگرانی میں چلنے والے مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا سیل نے اختر مینگل کو غدار اور دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) دراصل وسطی پنجاب کی جماعت بن چکی ہے اور اس کے کئی حامی آج کل پنجابی کارڈ کھیلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پنجابی زبان اور پنجابی کلچر سے محبت بڑی اچھی چیز ہے لیکن پنجابیت کے نام پر دوسری قومیتوں کے خلاف نفرت پھیلانا دراصل پاکستان دشمنی ہے۔ پنجاب کے اکثر دانشور بلوچستان کے مسائل کی ذمہ داری وہاں کے سرداروں پر ڈالتے ہیں۔ ہمارے یہ پنجابی ارسطو تھوڑی مہربانی کریں اور اپنے پیارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیں۔ کالم کے آخر میں حامد میر نے لکھا کہ اختر مینگل 1997ء میں وزیراعلیٰ بنے لیکن صرف 16ماہ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں فارغ کر دیا۔ مشرف دور میں اخترمینگل پر غداری کے مقدمے بنے لیکن انہوں نے وفاق کی سیاست نہیں چھوڑی لیکن 8 فروری 2024ء کو بلوچستان میں جس قسم کا الیکشن ہوا اس کے بعد بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کا پارلیمانی سیاست سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ آج بلوچستان میں جو حکومت قائم ہے اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو وفاق اور صوبے میں تنازعے سے فائدہ اٹھا کر جھنڈے والی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ تنازع ختم ہوگیا تو یہ صاحبان شائد اپنے صوبے میں رہائش بھی نہ رکھیں کیونکہ ان میں سے اکثر کے پاس اسلام آباد میں عالیشان گھر ہیں۔ اختر مینگل کا استعفیٰ اس ماڈل کی ناکامی کا آغاز ہے جو 8فروری 2024ء کو لایا گیا۔ اس ماڈل کو کامیاب بنانے کیلئے عدلیہ اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں ’’کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘‘ کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے اور اس ماڈل کو پورے پاکستان پر مسلط رکھنے کی کوشش کئی دیگر سیاست دانوں کو بھی اختر مینگل کی طرح پارلیمانی سیاست چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
0