0

حکومتی ایوارڈ بغیر سفارش کے کیوں نہیں ملتے؟

ہر سال کی طرح اس سال بھی(نیا محاذ) حکومت پاکستان کی جانب سے دیئے جانے والے ایوارڈ پر نظر پڑی تو ہمیشہ کی طرح آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔میری نظر میں ایوارڈ کے سب سے زیادہ مستحق اور حقدار پاک فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کے وہ افسر اور جوان ہیں جو وطن عزیز کی حفاظت کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔میری نظر میں دوسری فہرست میں سائنس دان، ڈاکٹرز، انجینئرز اور اساتذہ کرام بھی شامل ہیں۔میری نظر میں مصنفین، شاعر اور کالم نگار بھی ایوارڈ کے مستحق ہیں جو اپنی تحریروں، کتابوں اور اشعار سے پوری قوم کا حقیقی مزاج اور رائے بناتے ہیں،لیکن جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، چند ایک ایوارڈ پاک فوج کے شہیدوں کو دے کر باقی تمام ایوارڈایسے لوگوں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں جن کا قومی سطح پر کوئی قابل ذکر کردار اور خدمات نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں کوسوو کے مظالم پر لکھی جانے واحد کتاب میری ہے، جو 1998ء میں شائع ہوئی تھی۔ معرکہ کارگل پر دو کتابیں تالیف کیں۔مجھے فخر ہے کہ میں نے 2005 ء میں پاکستانی فوج اور پاک فضائیہ کی اردو میں تاریخ بھی لکھی۔ جس پر مجھے صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف،وائس آرمی چیف سمیت کور کمانڈر کے تعریفی خطوط بھی موصول ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی پریس انفارمیشن ڈیپارنمنٹ (PID) لاہور کی جانب سے مجھے اطلاع ملی کہ حکومت پاکستان نے آپ کو تمغہ حسن کارکردگی کے لئے تجویز کیا ہے، آپ اپنی گیارہ کتابیں اور اپنا سائی ٹیشن ہمارے دفتر میں جمع کروائیں جو دوسرے دن جمع کروادی گئیں۔یہ فریضہ انجام دینے کے بعدمیں نے اپنی بیگم کو خوشخبر ی سنائی کہ اللہ نے چاہا تو 14اگست کو ہم ایوان صدر پہنچ کر ایوراڈ وصول کرینگے۔بیگم نے کہا ایسا ہوتا نظر تو نہیں آتا،پھر بھی آپ کہتے ہیں، تو یقین کرلیتی ہوں۔ابھی چند دن بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (DGPR) کی جانب سے مجھے بتا یا گیا کہ آپ کا نام تمغہ حسن کارکردگی کے لئے جارہا ہے، جتنی جلدی ممکن ہوسکے اپنی گیارہ کتابیں اور سائی ٹیشن فراہم کریں۔یہاں بھی گیارہ کتابیں اور سائی ٹیشن جمع کروا دیا گیا۔اب ہم حکومت کی جانب سے دعوت نامے کا شدت سے انتظار کررہے تھے۔ کہ ایک دن کیبنٹ ڈویژن سے مجھے کسی افسر کی کال موصول ہوئی۔انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا آپ کا نام تمغہ حسن کارکردگی کے لئے آیا ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے آپ کسی بڑی سفارش کا انتظام کر لیں۔ میں نے انہیں کہا، میں ایک غریب باپ کا بیٹا ہوں۔ میں بڑی سفارش کہا ں سے لاؤں۔اتنی بات ہوئی اور کال ختم ہوگئی۔ اس کال نے ہماری خوشیوں پر اوس ڈال دی، لیکن دِل کے کسی کونے میں اب بھی امید کے چراغ ٹمٹا رہے تھے کہ شاید ایوارڈ مل ہی جائے۔14اگست بھی گزر گیا۔ نہ مجھے کسی نے بلایا اور نہ ایوارڈ ہی دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک قومی اور بین الاقوامی ایشو پر میری 35 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں۔: قومی ہیروز حصہ اول، قومی ہیرو ز حصہ دوم، میری سوانح عمری (لمحوں کا سفر) وطن کے پاسبان، شہدائے وطن،پاک فضائیہ، تاریخ کے آئینے میں، افواج پاکستان، تاریخ کے آئینے میں، مسلمانوں پر امریکی یلغار، معصوم افغانوں کا خون کس کے سر؟، ماں، کارگل کے ہیروز، کارگل سے واپسی؟، نور کائناتؐ، تخلیق کائنات،پاکستان میں قیامت کی پہلی دستک، فلسطین کب آزاد ہو گا؟ اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟،رشتے محبتوں کے،محبت، توہین رسالتؐ، غیرت ایمانی کی آزمائش،کوسوو کا المیہ، سامراجی سازشیں اور مشرقی تیمور، دس نشان حیدر، شہادتوں کا سفر، پاکستان کے سربراہان مملکت، گلدستہ اولیاء،نورالٰہی کے پروانے، عراق کے بعد اب کس کی باری ہے؟،درد کے آنسو، پاکستانی گلوکار/گلوکارائیں،ایٹمی طاقت ایران،صدام ہیرو یا زیرو، عدلیہ کی آزادی حقیقت یا خواب، قومی ہیرے، جبکہ 25سے زائد کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔ ان کتابوں کے نام درج ذیل ہیں -:ہیرے اور نگینے، سنہر ے لوگ،سچے موتی،انمول ہیرے، عظیم لوگ،نایاب ہیرے،جنرل ضیاء الحق، تاریخ کے آئینے میں، ذولفقار علی بھٹو، تاریخ کے آئینے میں،مشرقی پاکستان کے رستے زخم، پاک فوج کے عظیم کارنامے،زندگی اک سفرہے، سفر نامہ حجاز مقدس، بیشک انسان خسارے میں ہے،قلم کی نوک پر، دستک، پہلے صدارت،پھر پاکستان، عکس جہاں، وفاؤں کا حصار، نوید سحر، کوزے میں سمندر،دھنک،روشن چہرے، سیلاب نوح کی پہلی دستک،شہباز شریف کا پہلا دورِ حکومت۔ صدارتی ریفرنس کا عدالتی سفر، پانامہ سے اقامہ تک وغیرہ۔میری گیارہ کتابیں محکمہ ایجوکیشن پنجاب نے اپنے تعلیمی اداروں کی لائبریوں اور پبلک لائبریوں کے لئے منظور کیں۔خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کی جانب سے بھی میری گیا رہ کتابیں اپنے تعلیمی اداروں کے لیے منظور ہو چکی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر حکومت نے بھی گیا رہ ہی کتابیں اپنے تعلیمی اداروں کے لئے منظور کیں جن کی منظور ی کے لیٹر زآج بھی میرے پاس موجود ہیں۔صرف یہی نہیں۔روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والا میرا ایک کالم ”وہ پیپل کا درخت نہیں تھا“ ٹیٹرا پیک گرین میڈیا ایوارڈ 2007ء کے اول ایوارڈ (پچاس ہزار روپے) کا میں مستحق ٹھہرا۔ یہ ایوارڈ اے پی این ایس کے جنرل سیکرٹری قاضی محمد اسلم کے ہاتھوں میں نے کراچی پہنچ کر وصول کیا۔ آئی ایس پی آر رالپنڈی کی جانب سے مجھے پاک فوج کے دس نشان حیدر حاصل کرنے والے افسروں اور جوانوں کی کہانیاں لکھنے کا حکم ملا تھا جو میں نے تیار کرکے انہیں بھیج دیں۔اللہ کے فضل وکرم سے میں گزشتہ 28سال سے شعبہ صحافت میں ہوں۔روزنامہ جرأت لاہور، روزنامہ آج پشاور، روزنامہ ”دن“ لاہور، روزنامہ ”پاکستان“ لاہور، ”نوائے وقت“ لاہورمیں بھی 14سال ہفتہ وار کالم لکھ چکا ہوں۔فیملی میگزین، ہفت روزہ مارگلہ نیوزاانٹرنیشنل اسلام آباد میں بھی میرے مضامین گزشتہ 9 سال سے مسلسل شائع ہو رہے ہیں،لیکن افسوس در افسوس کہ میں اب بھی حکومت پاکستان کے تمغہ حسن کارکردگی ایوارڈ کا اہل قرار نہیں پا سکا۔کسی دل جلے نے کیا خوب بات کہی کہ جس نے حکومتی ایوارڈ لینا ہو،اسے نیزہ 93 میٹر دور پھینکنا پڑے گا۔اتنا دور نیزہ پھینکو اور ایوارڈ سمیت کروڑوں روپے لے کر مالا مال ہو جاؤیہی پاکستان کا دستور اور ایوارڈ لینے کا واحد طریقہ ہے۔میرے علاوہ میری نظر میں ڈاکٹر عارفہ صبح خاں نقاد، استاد اور کالم نگار، محمد سعید بودلہ قرآنی آیات کے مصور و خطاط، شاہد بخاری استاد، لیکچرار اور کالم نگار بھی حکومتی ایوارڈ کے مستحق ہیں۔اگر کوئی اصل حق داروں کو ایوارڈ دینا چاہے تو۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں