0

کورٹ مارشل میں کس قسم کی سزائیں دی جا سکتی ہیں؟

اسلام آباد (نیا محاز )آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کیخلاف کورٹ مارشل کارروائی شروع کر دی گئی ہے اس میں کس قسم کی سزائیں دی جا سکتی ہیں اس پر دفاعی تجزیہ کار نے روشنی ڈالی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد علی جنجوعہ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا کورٹ مارشل شروع ہونے اور انہیں فوج کی تحویل میں لئے جانے کے تناظر میں اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کورٹ مارشل کی اپنی ایک کارروائی ہوتی ہے جس میں ملزم کے خلاف ثبوت ریکارڈ کیا جاتا ہے، اس کی کاپی ملزم کو بھی فراہم کی جاتی ہے اور اپنے دفاع کا بھی مکمل حق دیا جاتا ہے۔راشد علی جنجوعہ نے کہا کہ اگر کسی کے خلاف ثبوت ناقابل تردید ہیں اور ملزم اس کے خلاف اپنا دفاع نہیں کر پاتا تو پھر کورٹ فیصلہ کرتا ہے سزا کا اور عملدرآمد کے لئے مجرم کو سویلین حکومت کے حوالے کیا جاتا ہے تاہم اس کو سپریم کورٹ میں ریویو کا حق حاصل ہوتا ہے۔دفاعی تجزیہ کار نے بتایا کہ کورٹ مارشل میں سول عدالتوں کی طرح غیر معینہ مدت تک کی سزائیں نہیں ہوتیں۔ ان کا ٹائم فریم ہوتا ہے اور ایک سال سے 14 سال تک سزا ہو سکتی ہے جب کہ معافی بھی دی جا سکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ کورٹ مارشل کرنے سے قبل کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے جس میں میجر جنرل رینک کا افسر ملزم کے خلاف ثبوت دیکھتا ہے اور پھر اس کے تناظر میں سفارش کی جاتی ہے کہ آیا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں اور جب کورٹ مارشل کیا جاتا ہے تو فیصلے تک ملزم کو فوج کی تحویل میں رکھا جاتا ہے۔
کسٹڈی میں کب لیا جاتا ہے؟ کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے میجر جنرل رینک کے افسر نے انکوائری الزامات ثبوت کو دیکھا جاتا ہے پھر سفارش کرتی ہے کہ یہ اس قابل ہے کہ کورٹ مارشل تک لے جاتے ہیں، جب آغاز ہوتا ہے تو ملزم کو فوج کی تحویل میں دیا جاتا ہے جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا۔بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد علی جنجوعہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اہم عہدوں پر تعینات شخصیات کو محتاط ہونا پڑتا ہے اور لوگ ہوتے بھی ہیں اگر اس معاملے میں نہیں ہوئے تو یہ افسوسناک بات ہے۔اس حوالے سے انہوں نے اپنا خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات اوور کانفیڈنس میں ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جس کا اس وقت ادراک نہیں ہوتا۔ فیض حمید کیس میں جب انہیں ثبوت فراہم کئے جائیں گے تب ہی پتہ چلے گا کہ حقیقت کیا ہے لیکن بادی النظر میں کورٹ آف انکوائری نے ان کے خلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ کیا تو لگتا ایسا ہے کہ ان کے پاس ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فوج کی تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں