0

اَنا کے بت کون توڑے؟

نجانے یہ احساس کیوں بڑھ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ضد یا اَنا کا مسئلہ ہے،جو معاملات کو حل کرنے کی راہ میں دیوار بنا ہوا ہے۔خواب ہم بڑے بڑے دیکھ رہے ہیں، ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے خواب،وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں ہم نے مشکل فیصلے کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے،نجانے کس دنیا کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں تو ترقی کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا،ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں،ساری معیشت سکڑ کر بجلی کے بلوں میں آ گئی ہے اِس کے علاوہ تو کہیں سے کوئی پیسہ مل نہیں رہا، نہ قرضہ اور نہ ملک میں سرمایہ کاری کا فروغ،اگر کہیں ہے تو بتایا جائے، قومی ادارے گروی رکھ کر جب روزمرہ اخراجات پورے کئے جائیں گے تو کیسی ترقی، کیسی خوشحالی،معاشی بہتری کے خواب تک بہت بعد میں شرمندہئ تعبیر ہوں گے ابھی تو ملک میں جو بے یقینی اور انتشار پھیلا ہوا ہے اُس کا علاج ہی نہیں مل رہا۔یہ کیسے چلے گا کہ اپوزیشن احتجاج کی کال دے اور آپ دفعہ144 لگا دیں۔ یہ آنکھ مچولی تو ملک کے مفاد میں نہیں،جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں 26جولائی کو دھرنا دینے کا اعلان بہت پہلے کیا تھا۔آپ اگر اجازت نہیں دینا چاہتے تھے تو اس کا اعلان کر دیتے۔پہلے شاید لگتا تھا جماعت اسلامی بھی فرینڈلی جماعت ہے اور تحریک لبیک کی طرح آئے گی پھر چلی جائے گی،لیکن جب امیر جماعت اسلامی حافظ محمد نعیم نے ماحول کو گرما دیا اور دوسری طرف یہ بھی یقین ہو گیا کہ بجلی کے بلوں پر عوام کا ایک سمندر اس احتجاج میں شریک ہو سکتا ہے تو آخری لمحے میں پکڑ دھکڑ شروع کی گئی۔اسلام آباد کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں جماعت اسلامی کی قیادت پُرعزم ہے کہ دھرنا ہو گا اور مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔تحریک انصاف تو بے چاری اتنا کچھ اِس لئے نہیں کر سکتی کہ اُس کے رہنماؤں پر بلا اجازت احتجاج کرنے، جلوس نکالنے یا دھرنا دینے پر مقدمات درج ہو جاتے ہیں،دیکھتے ہیں جماعت اسلامی کے ساتھ کیا ہوتا ہے البتہ یہ بات واضح ہے اِس وقت تک ملک میں افراتفری مچی ہوئی ہے، دہشت گردی کے واقعات ہوں یا احتجاج، یہ دونوں ہی ملک میں بے یقینی کو بڑھاتے ہیں اور ایسے حالات میں سرمایہ کار کیا رسک لے سکتے ہیں۔حکومت کتنے دن چلتی ہے،جب یہ سوال بھی سر پر لٹکتی تلوار کی طرح منڈلاتا رہے تو کوئی معجزہ ہی ہے، جو حالات کو بہتر بنا سکے۔
افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ منظر نامے پر سیاسی بصیرت اور سیاسی سوچ کا بُری طرح فقدان نظر آتا ہے، جہاں سارا زور اسی نکتے پر ہو کہ ایک سیاسی جماعت پر پابندی لگانی ہے،وہاں سیاسی استحکام کیسے آ سکتا ہے۔ کوئی چھوٹی موٹی جماعت ہو تو ایسے اقدام سے شاید کوئی فرق نہ پڑے مگر تحریک انصاف جیسی جماعت کو جس کی ایک صوبے میں حکومت، مرکز اور دیگر صوبوں میں نمائندگی موجود ہے، بیک جنبش ِ قلم منظر سے ہٹانا ایک غیر سیاسی، غیر دانشمندانہ سوچ کا عکس نظر آتا ہے۔ حیرت ہے دنیا میں بڑے سے بڑا مسئلہ سیاسی مذاکرات سے حل ہو جاتا ہے، پاکستان میں سیاسی حل کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر روز کوئی نئی کارروائی کر کے تحریک انصاف میں نئی جان ڈال دی جاتی ہے۔ اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اگر غیر جانبداری سے اُس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھلے گا ہم نے معاملات کو صفر سے تو سو تک خود پہنچا دیا ہے۔ معیشت بہتر ہوئی ہے نہ سیاسی استحکام آیا ہے۔ افراتفری کا ماحول ہے جس میں کسی کو کچھ پتہ نہیں کس سمت میں جانا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک میں سیاسی سوچ کی حام لیڈرشپ ہے ہی نہیں۔ مجھے نوابزادہ نصراللہ خان رہ رہ کر یاد آتے ہیں، جو ایسے معاملات میں ایک پل کا کردار ادا کرتے تھے ان جیسے قد آور سیاستدانوں کا اب مکمل فقدان ہے۔ صرف دبانے کی پالیسی اختیار کرلی گئی ہے۔ اس سے نظام کب تک چل سکتا ہے۔ مصنوعی سہاروں سے سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوتا اس کے لئے سیاسی سوچ اپنا کر فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے ہم سیاسی آزادیوں اور آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ یاد کیجئے کہ ایک زمانہ تھا جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی بحالی ئ جمہوریت کی تحریکیں چلتی تھیں۔ دونوں جرنیل انہیں طاقت کے ذریعے دبانے کی بجائے اظہار کا موقع دیتے تھے۔ تاہم ان کے ادوار میں ملک کے معاشی حالات اتنے اچھے تھے کہ عام آدمی بھی یہ محسوس کرتا تھا وہ ایک آسودہ زندگی گزار رہا ہے اِس لئے چلنے والی تحریکیں عوام کی مکمل حمایت حاصل نہیں کر پاتی تھیں، آج کے حالات تو بالکل مختلف ہیں۔ عوام کو مہنگائی اور جان لیوا بلوں نے مار رکھا ہے، خودکشیاں ہو رہی ہیں حتیٰ کہ قتل بھی ہو چکے ہیں۔ ایسے میں تو سیاسی قوتوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایک ہو جائیں اور مل بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں،اس کام کا آغاز حکومت میں شامل جماعتوں کی طرف سے ہوتا ہے لیکن یہاں پالیسی ہی بالکل مختلف ہے اور ہر ایسی جماعت کو جومہنگائی اور بجلی کے نرخوں پر احتجاج کرنا چاہتی ہے اسے ریاستی طاقت سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے فائدہ نہیں اُلٹا نقصان ہوتا ہے۔
یہ آوازیں اب بڑی شدت سے اُٹھ رہی ہیں کہ آئی پی پیز کے معاہدوں کو ختم کیا جائے۔ یقینا یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت اس مطالبے کے دوسری طرف کیوں کھڑی ہے اس کی حمایت کیوں نہیں کرتی۔ اِس حوالے سے پارلیمنٹ میں قرارداد کیوں نہیں لائی جاتی اور ان مہنگے معاہدوں سے فائدہ اٹھانے والون کو یہ پیغام کیوں نہیں دیا جاتا کہ اب قوم میں سکت نہیں رہی انہیں قربانی دینا ہو گی۔یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ ان کمپنیوں کے مالکان کی تفصیلات سامنے لائی جائیں جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے، اگر انہیں ان مشکل حالات میں بھی صرف پیسہ کمانے کی پڑی ہوئی ہے تو کم از کم عوام ان کا سوشل بائیکاٹ تو کرہی سکتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ پاور کمپنیوں کے مالکان حکومتی صفوں میں موجود ہیں یا سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ اِس لئے حکومت ان سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتی۔ ویسے بھی اِس وقت جو سیاسی عدم استحکام ہے اس کی موجودگی میں حکومت ایسے کسی بڑے فیصلے کی سکت نہیں رکھتی۔جماعت اسلامی اس مطالبے کو لے کر نکلی ہے۔ اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہے، لیکن فوری کوئی ریلیف ملنے کی اُمیدنہیں۔ یہ سوال آج کل اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا حالات یہیں رہیں گے، پہلی بار یوں لگ رہا ہے کہ اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ قوموں کی زندگی میں جب ایسا وقت آ جائے تو انہیں بڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں، مگر اِس وقت کوئی بھی اپنی اَنا کا بت توڑنے کو تیار نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں