اسلام آباد (نیا محاز اردو۔ 06 جولائی 2024ء) درختوں سے وابستہ ہماری یادیں ان پر چڑھنے، ان کی چھاؤں میں بیٹھنے یا ان کی شاخوں پر اگنے والے پھلوں کو دیکھنے اور توڑنے سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ درخت دراصل کیا ہیں؟
یہ زمین پر ہماری بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت بہت سی ”ماحولیاتی خدمات‘‘ انجام دیتے ہیں۔
درختوں کی ماحولیاتی نظام کے لیے خدمات
درخت ہمیں کئی طرح کی خوراک فراہم کرتے ہیں، جن میں سیب، کھجور، گری دار میوے، زیتون اور لیموں کے پھل شامل ہیں لیکن یہ تو فقط چند ہی نام ہیں۔
درختوں کی لکڑی انسانی تہذیب کی ترقی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔
اطالوی ایلپس پر پانچ ہزار تین سو سال قدیم برفانی دور کی ملنے والی ممی کے پاس سے بھی ایک کمان ملی تھی، جو لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔
لکڑی طویل عرصے سے ایندھن اور تعمیراتی مواد کے ساتھ ساتھ فرنیچر، موسیقی کے آلات، کاغذ اور ٹیکسٹائل ریشے بنانے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔
درخت ہوا اور پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ شور میں کمی بھی کرتے ہیں
لیکن درختوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ یہ ہمیں سانس لینے میں مدد دیتے ہیں۔ جب درخت بڑھتے ہیں تو ایک خاص عمل سے گزرتے ہیں، جسے فوٹو سنتھیسز کہا جاتا ہے۔
اس عمل کے دوران درخت آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والی گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے جذب کرتے ہیں اور سورج کی روشنی کی مدد سے اسے شوگر میں تبدیل کرتے ہیں، جو ان درختوں کو بڑھنے کے لیے توانائی فراہم کرتی ہے۔
فوٹو سنتھیسز کی ایک ضمنی پیداوار آکسیجن ہے، جس کے بغیر ہم اپنے سیارے پر زندہ نہیں رہ سکتے۔
کیا پیڑ ہمارے رشتہ دار ہیں؟
ایک درخت کتنی آکسیجن پیدا کرتا ہے، اس کا انحصار درخت کی قسم اور عمر پر ہوتا ہے۔
سدا بہار درخت ہمیشہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں جبکہ باقی درخت صرف پتوں کی صورت میں ہی آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق بیج پیدا کرنے والی عمر کا ایک درخت ہر سال 10 لوگوں کو آکسیجن فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے پتے ہوا میں سے کافی مقدار میں دھول اور بیکٹیریا کو بھی فلٹر کرتے ہیں۔
قدرتی ایئر کنڈیشنر
موسم گرما میں درختوں کے پتے ہمیں انتہائی ضروری سایہ فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ ہمیں الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بھی بچاتے ہیں۔
یہ اپنے اردگرد کی ہوا کو بھی ٹھنڈا کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر بیچ کے درخت اپنے پتوں کے ذریعے روزانہ 400 سے 500 لٹر پانی بخارات میں تبدیل کرتے ہیں، جو اپنے گرد ونواح کو تین سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا رکھتے ہیں۔
اور پھر درختوں کی جڑیں بھی انتہائی کار آمد ہیں۔ یہ نہ صرف بارش کے پانی کو مٹی میں ذخیرہ کرتی ہیں بلکہ زمینی پانی کو فلٹر کرتے ہوئے اس صاف بھی بناتی ہیں۔
یہ زمین کو مضبوط رکھنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ ڈھلوان پر لگے درخت کی جڑیں شدید بارشوں کے دوران زمین کو سرکنے سے روکتی ہیں۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ سائنسی اندازوں کے مطابق اس وقت تقریباً 4.3 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ صرف جرمنی کے جنگلات میں ذخیرہ ہے۔ وُڈ لینڈز بھی ہر سال تقریباً 52 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے نکال لیتی ہیں۔
تاہم جب لکڑی جل یا سڑ جاتی ہے تو گرین ہاؤس گیس واپس فضا میں چلی جاتی ہے۔
درخت جانداروں کی پناہ گاہیں
ایک درخت بہت سی مخلوقات کا گھر ہو سکتا ہے۔ تقریباً 200 مختلف اقسام کے کیڑے اور مکڑیاں ایک پرانے شاہ بلوط کے درخت پر رہتے ہیں۔ یہی کیڑے مکوڑے پرندوں، چمگادڑوں اور گلہریوں کی خوراک کے طور پر کام کرتے ہیں، جو درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں اگر درخت نہ ہوں تو ہم پرندوں کے گیتوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ دوسری جانب پرندے اور گلہریاں وغیرہ درختوں کی افزائش میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
درخت اور اسٹریس میں کمی
ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے لیکن درختوں کے درمیان وقت گزارنا ہمارے لیے اچھا ثابت ہوتا ہے۔ کچھ سائنسی مطالعات کے مطابق درختوں کے درمیان وقت گزارنے سے انسان کا مزاج اچھا ہوتا ہے اور اس طرح ذہنی تناؤ میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔
جنگلات میں چہل قدمی سے انسان کا قلبی اور مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا پورا جسم جنگل میں ری فریش ہو جاتا ہے۔
اور اگر یہ اس بات کا کافی ثبوت نہیں ہے کہ درخت انسان کے لیے حیرت انگیز ہیں، تو یہ دو مزید حقائق بھی پڑھ لیجیے۔
دنیا کا سب سے اونچا درخت اس وقت امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ہے، جس کی اونچائی 115.55 میٹر ہے۔ اسی طرح دنیا کا قدیم ترین درخت سویڈن کے فولو نامی پہاڑ پر ہے، جس کی عمر 9,550 سال بتائی جاتی ہے۔