ایک دوست کی عیادت کرنے نشتر ہسپتال ملتان گیا تو میرے ذہن میں مریم نواز کی سو دنوں پر مشتمل کارکردگی کا سنہری خاکہ موجود تھا، میرا خیال تھا نشتر ہسپتال جو جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے ان سودنوں کی کارکردگی سے مستفید ہو کر بہت بہتر ہو گیا ہو گا، ابھی داخل ہی ہوا تھا کہ مجھے میرے علاقے کا ایک غریب مزدور مل گیا،
یہ شخص میرے پاس کئی بار گھر کی مرمت کے سلسلے میں مزدوری کر چکا تھا،
اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا، صاحب جی کسی کو کہہ کر میری ماں کا ایکسرے تو کرا دیں میں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے ایکسرے تو معمول میں ہو رہے ہوں گے، کہنے لگا نہیں بابو جی کہہ رہے ہیں ایکسرے مشین خراب ہے باہر سے کرا کے لائیں میری ماں کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے، بڑی مشکل سے یہاں تک لائے ہیں اب باہر کہاں لے کر جائیں، پھر اتنے پیسے بھی نہیں، میں نے کہا اچھا آؤ میرے ساتھ، شاید کوئی جاننے والا ڈاکٹر مل جائے۔ایکسرے ڈیپارٹمنٹ میں گیا تو وہاں رش لگا ہوا تھا، مریض زخمی حالت میں بھی پڑے تھے اور بعض نے پرچیاں بھی سنبھالی ہوئی تھیں
۔ خیر میں نے کسی طرح اندر تک رسائی حاصل کی تو ٹیکنیشن نے بتایا ایکسرے مشین فی الوقت خراب ہیں، اطلاع دے دی گئی ہے، کمپنی والے آئیں گے تو درست ہو جائے گی۔ میں سوچنے لگا مریم نواز بھی اکیلی کیا کریں، انہیں اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر وہی کچھ بتانا ہوتا ہے جو بیورو کریسی انہیں فراہم کرتی ہے۔
اُنہوں نے گھر گھر ادویات پہنچانے کا جو منصوبہ کروڑوں روپے کی لاگت سے شروع کیا تھا، اس کا کیا بنا کسی کو کوئی خبر نہیں البتہ سو دنوں کے کارناموں میں اس کا ذکر شروع سے ضرور کیا گیا ہے، ابھی نشتر ہسپتال ہی میں تھا کہ ایک دوست کا فون آ گیا، علیک سلیک کے بعد انہوں نے کہا آج تو ایک نیکی کا کام کر دیں میں نے ازراہِ تفنن کہا، نیکی اور پوچھ پوچھ، کہنے لگے نشتر ہسپتال کے وارڈ نمبر 22 میں ایک نوجوان داخل ہے، جو کھمبے سے گر گیا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی پر چوٹیں آئی ہیں اب اس کا سی ٹی سکین ہونا ہے لیکن نشتر والے کہہ رہے ہیں سی ٹی سکین مشین تو دو ہفتوں سے خراب ہے، اس لئے باہر سے کرا کے لائیں، غریب آدمی ہے باہر سے کرانے کی سکت نہیں، ایم ایس سے بات کر کے دیکھیں، غریبوں کو تو مشین خراب ہونے کا بہانہ کر کے ویسے ہی ٹرخا دیتے ہیں ابھی میں فون سن رہا تھا کہ میری نظر پریس کلب ملتان کے جنرل سیکریٹری اور ایک قومی روزنامہ کے چیف رپورٹر نثار احمد اعوان پر پڑی، وہ مجھے دیکھ کر میری طرف ہی آ رہے تھے۔ ملتان میں مشہور ہے کہ ہیلتھ کے شعبے میں ان کی بڑی واقفیت ہے، اس لئے انہیں دیکھ کر مجھے امید بندھی کہ ایکسرے اور سی ٹی سکین کا مسئلہ حل ہو جائے گا ، میں نے انہیں ساری رام کہانی سنائی تو انہوں نے کہا مرشد کسی سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، واقعی یہ مشینیں خراب ہیں اور باہر سے مریضوں کو ایکسرے اور سی ٹی سکین کرانے پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا دو ہفتے سے اخبارات میں اس حوالے سے خبریں چھپ رہی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کی باتیں سن کر میں مایوس ہو گیا، میں سوچنے لگا اس ہسپتال کے لئے ہر سال اربوں کا بجٹ رکھا جاتا ہے مگر حالت یہ ہے کہ بنیادی سہولت تک میسر نہیں۔
وزیراعلیٰ مریم نواز صحت کے شعبے میں واقعی کچھ کرنا چاہتی ہوں گی، انہوں نے ینگ ڈاکٹروں کی پندرہ روز سے جاری رہنے والی ہڑتال پر یہ بھی کہا تھا کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گی۔ یہ ہڑتال تو اب لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے ختم ہو گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا مریم نواز اب کسی سرکاری ہسپتال کے حالات جاننے کے لئے جائیں گی؟وہ ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں 13 بچوں کی ہلاکت پر دورہ کر کے جس طرح بلا سوچے سمجھے فیصلے کر کے تنقید کی زد میں آئیں اور صوبے کے مریضوں کو پندرہ دنوں تک ینگ ڈاکٹروں کی طرف سے ہسپتالوں کی اوپی ڈی کو بند کرنے کے باعث جو اذیت برداشت کرنی پڑی،اس سے کیا حاصل ہوا، الٹا وہ مافیا جو سرکاری ہسپتالوں کو اپنی جاگیر سمجھ کے بیٹھا ہے مزید شیر ہو گیا۔ یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے دورہئ ساہیوال کے دوران 13 بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے ساہیوال میڈیکل کالج کے وائس چانسلر، ہسپتال کے ایم ایس اور دیگر ڈاکٹروں کو ہتھکڑیاں لگوا دی تھیں۔ حکمرانی کا یہ انداز تھوڑی دیر کے لئے واہ واہ تو کرا دیتا ہے، مگر اس کے نتائج مثبت کی بجائے منفی نکلتے ہیں ان گرفتاریوں پر ڈاکٹروں نے اسی وقت احتجاج شروع کر دیا اور ہسپتال کو تالے لگا دیئے، جس کے بعد گرفتار ڈاکٹروں کو رہا کر دیا گیا لیکن ڈاکٹروں نے معافی مانگنے اور ساہیوال کے ڈی پی او کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر دیا، یوں فائدہ تو کیا ہونا تھا لینے کے دینے پڑ گئے اور مریضوں کو پورے پنجاب میں علاج معالجے کی سرکاری سہولتوں سے محروم ہونا پڑا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف بے شک یہ کہیں وہ کسی کے سامنے نہیں جھکیں گی، مگر انہیں کیا فرق پڑے گا، نزلہ تو غریب عوام پر گرے گا جو ان سہولتوں سے بھی محروم ہو جائیں گے جو تھوڑی بہت ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور وارڈز میں مل جاتی ہیں۔ انکوائری کے بغیر بادشاہی انداز میں کئے گئے فیصلے کبھی گڈ گورننس کی بنیاد نہیں بنتے۔
سرکاری شعبے کے ہسپتالوں کی حالت واقعی دِگرگوں ہے، بہت سے اتنظامی مسائل ہیں، فنڈز کی کمی اور مریضوں کے رش کی وجہ سے بھی یہ شعبہ دباؤ کا شکار ہے تاہم اس شعبے کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ملک کی بڑی آبادی کے علاج معالجے کا انحصار انہی ہسپتالوں پر ہے، ان ہسپتالوں کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، ادویات کی فراہمی اور ایکسرے نیز سی ٹی سکین یا ایم آر آئی جیسے ٹیسٹوں کے لئے مشینوں کی تسلسل کے ساتھ خرابی اس کرپشن کا نتیجہ ہے، ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ سینئر ڈاکٹرز سرکاری وقت میں اپنے پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں،اس وقت عملاً سرکاری ہسپتالوں پر ینگ ڈاکٹرز کا راج اس لئے بھی ہے کہ سینئر ڈاکٹرز اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں انہوں نے ینگ ڈاکٹرز کو حکومت اور انتظامیہ کے خلاف ایک ہتھیار بنا لیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس نے ینگ ڈاکٹرز کو باور کرایا ہے کہ ان کا پیشہ دکھی انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے، انہیں ہڑتال کرتے ہوئے اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہئے،یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ہسپتال کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وزیراعلیٰ ہی دورہ کریں۔ ضلعی ڈویژن سطح کی بیورو کریسی آخر کس مرض کی دوا ہے، کہنے کو ایک محکمہ ہیلتھ بھی موجود ہے اور ہسپتالوں میں ایم ایس بھی ہوتے ہیں مگر اُنہی ہسپتالوں میں کیا ہو رہا ہے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، ایک ایسے ملک میں جہاں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے وہاں سرکاری سطح پر علاج معالجے کی سہولت ایک ایسی ضرورت بن جاتی ہے جو اگر پوری نہ ہو تو مرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔