0

امریکا نے ایغورمسلمانوں سے جبری مشقت کے الزام میں تین چینی کمپنیوں کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی

سنکیانگ کے بارے میں چینی مرکزی حکومت کی پالیسی بہت مقبول ہے نام نہاد جبری مشقت اور نسل کشی کے الزامات مکمل طور پر بکواس ہیں. ترجمان چینی وزارت خارجہ
بیجنگ/واشنگٹن(نیا محاز اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون۔2024 ) امریکی داخلی امور کے ذمہ دار ادارے”ہوم لینڈ سکیورٹی“ کی جانب سے تین چینی کمپنیوں کو ایغوروں مسلمانوں سے جبری مشقت میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت ”ایغور جبری مزدوری کی روک تھام ایکٹ اینٹیٹی لسٹ“میں شامل کرتے ہوئے ان کمپنیوں کی مصنوعات کی ملک میں درآمد پر پابندی عائد کردی ہے.

عالمی امور کے ماہرین اسے امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کی کڑی قراردے رہے ہیں ”ہوم لینڈ سیکورٹی“کے اقدام پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جین نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایک بار پھر سنکیانگ کے بارے میں من گھڑت اور غلط بیانی پھیلائی ہے اور انسانی حقوق کی آڑ میں چینی کمپنیوں پر غیر قانونی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کی چین سختی سے مخالفت اور مذمت کرتا ہے.
انہوں نے کہا کہ سنکیانگ کی ترقیاتی کامیابیاں سب کے لئے واضح ہیں، اور سنکیانگ کے بارے میں چینی مرکزی حکومت کی پالیسی بہت مقبول ہے نام نہاد جبری مشقت اور نسل کشی کے الزامات مکمل طور پر بکواس ہیں جو چین مخالف عناصر کی ایک بہت کم تعداد کی طرف سے تیار کردہ صدی کے جھوٹ ہیں جن کا مقصد چین کو بدنام کرنا اور چین کی ترقی کو روکنا ہے. ترجمان نے کہا کہ جھوٹ کی بنیاد پر چینی کمپنیوں کو پابندیوں کی فہرست میں ڈال کر امریکہ نے چین کے داخلی معاملات میں سنجیدگی سے مداخلت کی ہے، مارکیٹ کے معمول کے نظم و نسق کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بین الاقوامی تجارتی قواعد اور بین الاقوامی تعلقات کو چلانے والے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے.
دوسری جانب امریکہ نے شمال مشرقی چین میں امریکی کالج کے چار انسٹرکٹرز پر حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے چینی حکام کے مطابق وہ واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں وائٹ ہاﺅس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ امریکہ کو چین کے شہر جیلن میں امریکی شہریوں کو چاقو سے حملے پر گہری تشویش ہے. مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ امریکی عہدیدار چین میں انسٹرکٹرز اور واشنگٹن ڈی سی میں چینی ہم منصب حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متاثرہ افراد کی ضروریات پوری ہوں اور قانون نافذ کرنے والے مناسب اقدامات کر سکیں چین میں امریکی سفیر نکولس برنز نے بھی سوشل میڈیا پر بیان میں حملے پر پریشانی کا اظہار کیا ہے.
انہوں نے کہا کہ میں امریکی شہریوں پر چین کے شہر جیلن میں چاقو سے حملے سے غصے میں ہوں اور بہت پریشان ہوں سفیر برنز نے بتایا ایک امریکی قونصلر افسر نے ہسپتال میں ان چاروں کی عیادت کی تھی چین کی وزارتِ خارجہ نے منگل کو اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ متاثرین میں سے کسی کی بھی جان کو خطرہ نہیں ہے. امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘ امریکی ریاست آئیووا کے لبرل آرٹس ادارے ”کورنیل کالج“ کے چار اساتذہ مقامی یونیورسٹی کے ساتھ شراکت کے پروگرام میں چین میں تھے پولیس نے بتایا کہ ایک پانچویں شخص پر جو چینی تھا اس وقت چاقو سے وار کیا گیا جب اس نے حملے کو روکنے کی کوشش کی.
مقامی پولیس نے بعد میں ایک نوٹ جاری کیا جس میں اس شخص کی شناخت کیوئی ڈپینگ کے نام سے کی گئی جو جیلن شہر کے لانگٹن ڈسٹرکٹ کا رہائشی ہے حکام نے بتایا کہ کیوئی نے اس گروپ پر حملہ کیا جب ان میں سے ایک ممبر سے اس کی ٹکر ہوئی چین کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حملہ ایک الگ تھلگ واقعہ تھا. چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے یہ بھی کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس واقعے سے چین امریکہ عوام سے عوام کے تبادلے کی معمول کی ترقی پر اثر پڑے گا واضح رہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات تجارت اور انسانی حقوق سے لے کر تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین تک کئی مسائل پر کشیدہ ہیں تاہم، دونوں ممالک عوامی سطح کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں