0

گندم چوری کا الزام مجھ پر ثابت ہوا تو میں حاضر ہوں،انوارالحق کاکڑ

مجھ پر الزام ہے کہ ریاستی اداروں کی وجہ سے مجھ پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا، الزام لگایا گیا کہ میں نے گندم چرائی، بنائیں جوڈیشل کمیشن اور فیصلہ کریں،سابق وزیراعظم کا تقریب سے خطاب

راولپنڈی(انیا محاز اخبارتازہ ترین۔10جون 2024 ) سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ گندم چوری کا الزام مجھ پر ثابت ہوا تو میں حاضر ہوں،مجھ پر الزام ہے کہ ریاستی اداروں کی وجہ سے مجھ پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا، مجھ پر الزام لگایاگیاکہ میں نے گندم چرائی، بنائیں جوڈیشل کمیشن اور فیصلہ کریں۔راولپنڈی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق نگران وزیراعظم نے کہا ہے کہ ایف بی آر میں ریکارڈ موجود ہے۔
7 سے 8 کمپنیوں نے گندم درآمد کی۔ 7 سے 8 کمپنیوں کا فرانزک کر لیں ثابت ہو جائے گا۔ کیوں حکومت یا کوئی پرائیویٹ ایجنسی تحقیقات نہیں کرا رہی ہے۔ لوگوں نے کہا کہ بمپر فصل آئی ہے،۔آپ کو خیال نہیں آیا؟ قدرت نے فیور دی بمپر فصل آئی لیکن سر پلس ابھی بھی ہے۔ کیا کسی نے اب تک سوچا کہ آٹے کی لائن میں ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟۔

کل رات نسیم شاہ رو رہا تھا کیونکہ ہم میچ ہار گئے، ہم بار بار ہار رہے ہیں کیونکہ ہم اپنا رویہ نہیں بدل رہے۔

پاکستان کی معیشت کو ریونیو جنریشن کا بڑا چیلنج ہے، 70 سال میں ایف بی آر میں اصلاحات کا کوئی خیال نہیں آیا، اپنے دورِ حکومت میں ایف بی آر میں اصلاحات لائے۔انہوں نے کہا کہ ہم لائیو سٹاک پر ٹیکس نہیں لگاتے۔ ٹیکس لگانا اور جمع کرنا ریاست کا حق ہے۔ ٹیکس نیٹ سے باہر لوگ موجیں کر رہے ہیں۔ معیشت کے سائیکل کو چلانے کیلئے ٹیکس جمع کرنا ضروری ہے۔
ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 10 فیصد سے کم ہے۔ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس کٹ جاتا ہے، ہماری 80 فیصد معیشت بغیر دستاویز ہے، مغرب میں جوس کی خریدی جانے والی بوتل بھی ڈاکومینٹڈ ہے، ہمارے ہاں ریٹیلر اور زراعت ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔سابق وزیراعظم انوارالحق نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح معیشت کا تعین کرتی ہیں۔ہمارے ہاں ہمیشہ رونا رویا جاتا ہے۔
تعلیم پر 2 فیصد خرچ ہوتا ہے، میرا یہ سوال ہے کہ آپ حکومت کو کتنا کما کر دیتے ہیں۔ ہم نے تعمیر پاکستان تو کی لیکن تکمیل پاکستان میں پیچھے رہ گئے۔ ہمارے لئے روز نئے نئے چیلنج پیدا ہو رہے ہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ایکسپوڑر کم ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری ریسرچ اور انفارمیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔ قومیں جتنا کماتی ہیں اتنا ہی خرچ کرتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں