کیا آپ نے غور کیا ہے کہ آج سے دو دہائیاں قبل سفرنامے تسلسل سے سامنے آتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے۔آج ادب کی دیگر اصناف تو پھل پھول رہی ہیں لیکن سفرنامے کو بریک لگ چکی ہے۔سبب اِس کا یوٹیوب ہے۔آج اگر کوئی شخص کسی نئے خطے کا سفر کرتا ہے تو اپنی حیرتوں کے اظہار کے لیے وڈیو بناتا ہوں۔اپنا وائس اوور دیتا ہے اور یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیتا ہے۔یہ وڈیو بہت ذوق و شوق اور انہماک سے دیکھی جاتی ہیں۔ دیکھنے والے اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرتے ہیں۔ میری یہ بات آپ کو شاید کچھ عجیب لگے لیکن ہے سچ کہ الفاظ، کیمرے سے بنائی ہوئی تصویر یا وڈیو کا متبادل نہیں ہو سکتے۔لکھے ہوئے سفر نامے میں مرقع نگاری کے ضمن میں بہت سے خلا رہ سکتے ہیں جبکہ کیمرا ساری جزئیات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ کتاب پڑھنے کا ایک اپنا ہی لطف ہے۔لکھنے والا الفاظ کے ذریعے سے جہاں ظاہر کی منظرکشی کرنے کی کوشش کرتا ہے وہاں وہ اپنی داخلی کیفیات کو بھی بیان کرتا ہے۔لکھا ہوا سفرنامہ مربوط اور مسلسل ہوتا ہے جبکہ وڈیو سفر نامہ ٹکڑوں کی صورت میں ہوتا ہے۔اِس لیے یہ ویسا لطف نہیں دے پاتا جیسا لکھے ہوئے سفر نامے میں ہوتا ہے۔
ان دنوں لاہور کیا پورے پاکستان میں ہمارے کے نظریاتی دوست فرخ سہیل گوئندی کی سفر نگاری کا چرچا ہے۔ان کا ایک سفر نامہ “میں ہوں جہاں گرد” آج سے دو برس پہلے سامنے آیا۔اِس میں گوئندی صاحب نے ایران،ترکی اور بلغاریہ کی مسافت کو سیاحت کے رنگ میں پیش کیا ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تینوں سفر آج سے چالیس برس قبل کیے تھے۔ایک ادیب، صحافی سے اِسی لیے مختلف ہوتا ہے کہ وہ صحافی کی طرح کاتا اور لے دوڑی والا کام نہیں کرتا بلکہ جو کچھ دیکھتا ہے، اِسے اپنے گہرے مشاہدے کا حصہ بناتا ہے۔اِس کے مضمرات،جزئیات اور تمام پہلووں پر غور و فکر کرتا ہے۔اِس میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ اِس بات کی اُسے کوئی پروا نہیں ہوتی۔اِس میں برس ہا برس بھی لگ جاتے ہیں۔اِس کی سب سے بہترین مثال گوئندی صاحب کا یہ سفرنامہ ہے جو انہوں نے تقریبا” چار دہائیوں کے بعد لکھا۔یہی وجہ ہے کہ اِس سفرنامے میں وقتی تاثر نہیں بلکہ تاریخی اور آفاقی لطف ہے
اِس سفرنامے کی دوسری خصوصیت یہ کہ اِس میں تین ایسے ملکوں کی سیاحت کا احوال بیان کیا گیا ہے جن کے نظام ہائے حکومت چالیس سال پہلے بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے اور آج بھی مختلف ہیں۔یوں یہ سفرنامہ اپنے قاری کو تین الگ الگ سیاسی سمتوں کی طرف لے کر جاتا ہے۔
مسافر اور سیاح میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مسافر اللہ کی عطا کی ہوئی دو آنکھوں سے اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے جبکہ سیاح دل کی آنکھ سے کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے۔اِس کے سینے میں ایک بچے کا دل ہوتا ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر حیران ہوتا ہے۔فرخ سہیل گوئندی نے اپنے دل کی آنکھ سے ایک بچے کی طرح ان تین ملکوں کو دیکھا ہے۔سیاحت اصل میں ایک فطری رویے کا نام ہے جو کسی کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔گوئندی صاحب بھی اِسی فطری رویے کے مالک ہیں۔ میری طرح وہ بھی گلی گلی، کوچہ کوچہ ایک بے چین روح کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔ان کے اندر کا سیاح انھیں نچلا نہیں بیٹھنے دیتا۔گوئندی صاحب کا اظہار خواص کا سا ہے لیکن ان کی تان عوام پر آ کر ٹوٹتی ہے۔بقول میر:شعر میرے ہیں گو خواص پسند
گفتگو پر مجھے عوام سے ہے
انہوں سارے نظام ہائے سیاست کو غور سے دیکھنے کے بعد محسوس کیا ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہی ہوتے ہیں۔سو اب ہم جیسے عام لوگ بھی ان کے دائرۂ احباب میں شامل ہیں اور یہ دائرہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔