ہر روز ایک نیا تماشا ہوتا ہے اور اگلے دن ختم ہوجاتا ہے۔ اُس کی جگہ ایک اور نیا تماشا لے لیتا ہے ان تماشوں کی رفتار اتنی تیز ہے کہ عوام سنبھلنے نہیں پاتے۔ ایک کا جواب نہیں ملتا دوسرا تماشا نئے سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔ کرتب دکھانے والوں نے یہ تو بڑا آسان حل ڈھونڈ لیا ہے۔ نہلے پہ دہلامارو اور آگے بڑھ جاؤ۔ اب یہی دیکھئے کہ گندم سکینڈل کتنے زور و شور سے بے نقاب ہوا تھا۔ ہر طرف دہائی مچ گئی تھی، اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کئے گئے تھے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا تھا کوئی ذمہ دار بچ نہیں سکے گا۔ ایف آئی اے کو ٹاسک دے دیا گیا تھا۔ نیب نے بھی اس سکینڈل میں حصہ لینے کے لئے اپنی خاموشی توڑ دی تھی مگر صاحبو! ہوا کیا۔ سوائے سڑکوں پر کسانوں کے دھکے کھانے، پولیس سے پٹنے، گرفتار ہونے اور آنسو گیس کے شیل اس گرمی میں برداشت کرنے کے، آج یہ معاملہ تو دب گیا ہے کہ گندم کس نے درآمد کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سے فائدہ کس نے اٹھایا، اربوں روپے کمائے دوسری طرف ملک کو اربوں روپے کے نقصان سے دوچار کیا۔ اب تو بس یہی بیان بازی ہے کسان کو اس کا پورا حق دیں گے، گندم پوری قیمت پر خریدیں گے جبکہ امرِ واقعہ یہ ہے گندم کی سرکاری نرخوں پر خریداری شروع ہی نہیں ہو سکی۔ کسان آج بھی گندم 2800روپے سے تین ہزار روپے من تک بیچنے پر مجبور ہے۔ جماعتِ اسلامی ان کی مدد کے لئے آئی ہے۔ گورنر ہاؤس لاہور کے سامنے دھرنا بھی دیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن نے یہ بھی کہا ہے کسانوں کا نقصان پورا کرانے سے پہلے چین سے نہیں بیٹھیں گے، لیکن یہ کام آسان نظر نہیں آتا۔ پنجاب میں احتجاج کو ویسے ہی شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ حافظ نعیم الرحمن لاہور کے احتجاج میں شریک تھے،وگرنہ پنجاب کے دیگر شہروں میں جہاں جہاں احتجاج ہوا ہے، پولیس نے بے دریغ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسے ناکام بنانے کی پوری کوشش کی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کی بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں کسان اتحاد والے جس شہر میں احتجاج کی کال دیتے ہیں پولیس راتوں رات ان کے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے لئے گھروں پر دھاوا بول دیتی ہے۔ اب ایک طرف حکومت کہتی ہے کاشتکاروں سے زیادتی نہیں ہونے دے گی اور دوسری طرف وہ پرامن احتجاج کرتے ہیں تو پولیس ایکشن ہو جاتا ہے۔ اسے جمہوریت کہا جا سکتا ہے؟ یا گڈگورننس ایسے قائم ہوتی ہے کہ احمد فرہاد کی طرح جو بھی بولے اسے اٹھا لو۔
0