0

کیا پنجاب میں پولیس مقابلوں کا دور واپس آرہا ہے؟

لاہور (نیا محاز )پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 12 مئی کی رات کو ایک پولیس مقابلہ ہوا۔ کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث چار دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک گئے ۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق ان چار مبینہ دہشت گردوں میں سے ایک ملزم فیضان پہلے ہی پولیس حراست میں تھا اور اس پر کم از کم دو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹڈ کلنگ میں مارنے کا الزام تھا۔
مارے گئے باقی تین ملزمان سے متعلق ابھی پولیس یہ تصدیق نہیں کر پائی کہ وہ کون ہیں۔ اس مبینہ پولیس مقابلے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کیا جانے والا پورا بیان کچھ یوں ہے کہ ’لاہور میں پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں گرفتار مرکزی ملزم محمد فیضان نے دوران تفتیش یہ انکشاف کیا کہ اس نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ کرول جنگل میں چھپایا ہے

جس پر ملزم کو اس جگہ لے جایا گیا تو دو ہینڈ گرنیڈ اور دو پستول ملے۔‘پولیس کے بیان کے مطابق ’اسی دوران کرول گاوں سے چھ موٹر سائیکل سوار نمودار ہوئے اورپولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے اپنی حفاظت کے لئے جوابی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملزم فیضان اور تین نامعلوم دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے جبکہ باقی تین دہشت گرد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

خیال رہے کہ 20 سالہ فیضان کا تعلق لاہور کے علاقے الفلاح ٹاﺅن سے تھا۔ ان کے والد بادامی باغ میں ایک سٹیل مل میں منیجر ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ان پر چودہ سال کی عمر میں تھانہ شاہدرہ میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی جو کہ غیر قانونی پستول رکھنے کی وجہ سے تھی۔ اسی طرح پندرہ سال کی عمر میں 2018 میں بھی تھانہ شادباغ میں ان پر ایف آئی آر درج ہوئی جو اسلحہ سے متعلق تھی۔ تیسری اور آخری ایف آئی آر 2021 میں ہوئی جس میں ان پر بارودی مواد رکھنے کا الزام تھا۔
ان کا نام پولیس کی واچ لسٹ میں بھی شامل تھا۔ پولیس کو دیے گئے ملزم کے اعترافی بیان کے مطابق جو کہ عدالت میں بھی جمع کروایا گیا ہے فیضان نے کہا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ان کو جعلی مقدمے میں جیل بھیجا اور وہ اب اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ جیل میں انہیں دہشت گرد ملے جنہوں نے ضمانت کروائی اور افغانستان بھیج دیا جہاں سے ٹریننگ کر کے وہ واپس آئے اور دو پولیس اہلکاروں کو قتل کیا۔پولیس نے ایک سب انسپکٹر اور ایک کانسٹبل کی اچانک ہلاکت کے بعد سی سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے نشاندہی پر الفلاح ٹاون سے ملزم فیضان کو پکڑ لیا اور ریمانڈ کے لئے عدالت بھی پیش کیا تاہم جلد ہی یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ ایک پولیس مقابلے کے دوران وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔
گزشتہ مہینے 8 اپریل لاہور کے علاقے شاہدرہ میں دو ڈاکووں نے ایک دکان پر باپ کے سامنے بیٹی کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں یہ واقعہ دیکھا جا سکتا ہے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اور پھردو روز بعد پولیس نے واقعے میں ملوث ٹوپی گینگ کے انہی دو مبینہ ڈاکووں کو ایک مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا۔بارہ مئی کو ہی لاہور میں ایک اور واقعہ ہوا جس میں پاکپتن پولیس نے لاہور کے علاقے نواب ٹاون میں ایک شخص فیصل بٹ کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تاہم ہلاک ہونے والے شخص کی بیٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے باپ ایک تاجر ہیں اور پولیس نے انہیں ہمارے سامنے قتل کیا۔
پاکپتن پولیس پرائیویٹ گاڑیوں میں ایک یوسف بٹ نامی شخص کو گرفتار کرنے پہنچی تاہم ان کے بھائی فیصل بٹ نے ڈاکو سمجھ کر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں خلیل نامی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا جبکہ موقع پر ہی فیصل بٹ کو مار دیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں