غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 13 ہزار سے زائدبچے جاں بحق ہوچکے اور ہزاروں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ غزہ میں جہاں بچے بھوک کا شکار ہیں تو وہاں ہزاروں بچے مضر صحت غذا کی وجہ سے بھی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں جب کہ غذائی قلت کے شکار ان بچوں میں اب رونے کی بھی سکت نہیں رہی، ہزاروں زخمی بچے ایسے بھی ہیں جن کی کوئی اطلاعات نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، ممکنہ طور پر وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، بچوں کی اتنی بڑی شرح اموات کسی بھی تنازع یا جنگ میں نہیں دیکھی گئی ہے لیکن دنیا ان جرائم پر بالکل خاموش ہے، غزہ میں بچے وارڈز میں مضر صحت غذا کی وجہ سے خون کے امراض کا بھی شکار ہیں، غزہ میں امدادی ٹرکوں اور دیگر امداد کے لیے بہت بڑے انتظامی چیلنجز ہیں، اسرائیل خوراک کے نظام کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت تباہ کررہا ہے۔ اور بچوں کے علاوہ غزہ متاثرین کو خوراک کی فراہمی میں بے شمار مشکلات پیش آ رہی ہیں اور کئی سرحدی ممالک کو عبور کرکے المصطفے ٹرسٹ برطانیہ سے غذا کی فراہمی میں مصروف عمل ہے عبدالرازق ساجد مسلسل فوڈ اور روزمرہ استعمال کی اشیاء_ غزہ کے متاثرین کو ہلال احمر کے ذریعہ پہنچا رہے ہیں اور نواز کھرل پاکستان میں المصفطے ٹرسٹ کے فلاحی منصوبوں کو دل جمعی سے جاری رکھے ہوئے ہیں غذائی قلت کا بحران غزہ میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب غذائی قلت سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے پوری دنیا کے ممالک احتجاعی تحریکوں کے ذریعہ اسرائیل کو لعن وطعن کر رہے ہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا، غزہ میں مسلمانوں کو بچانا ہے تو جارحیت کے علاوہ فی الحال اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔
0